سورة طه - آیت 38

إِذْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ أُمِّكَ مَا يُوحَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جب ہم نے آپ کی ماں سے بذریعہ الہام (١٥) وہ بات کہی تھی جو کہی جانے والی تھی

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

سیدنا موسیٰ کی پیدایش اور صندوق میں ڈالنا: ہوا یہ تھا کہ فرعون کو ایک ڈراؤنا خواب آیا جس کی تعبیر اسے درباری نجومیوں نے یہ بتائی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہونے والا ہے۔ جو تمھاری سلطنت کو تہ و بالا کر دے گا اور تمھاری ہلاکت کا موجب بنے گا۔ اس کا توڑ فرعون نے یہ سوچا کہ آیندہ بنی اسرائیل کے ہاں جتنے لڑکے پیدا ہوں ان کو پیدا ہوتے ہی مار ڈالا جائے اور اس حکم کی تعمیل کے لیے اس نے اپنے تمام اہل کاروں کو ہدایات جاری کردیں اور دائیوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ جب بھی بنی اسرائیل کے کسی فرد یا قبطی کے ہاں لڑکا پیدا ہو وہ فوراً حکومت کو اس کی اطلاع کرے۔ تقدیر کے سامنے تدبیر کی ناکامی: دراصل فرعون کی یہ تدبیر کہ پیدا ہوتے ہی ہر لڑکے کو مار ڈالا جائے اس کی حماقت اور ناعاقبت اندیشی پر مبنی تھی اور اس کی اس ظالمانہ تدبیر کے باوجود تقدیر غالب آئی اور جو کچھ اللہ کی مشیت تھی وہ ہو کے رہا۔ فرعون کا یہ وحشیانہ عمل ایک طویل عرصے سے بنی اسرائیل پر ڈھایا جا رہا تھا جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تو ان کی والدہ اس بچے کے قتل کے تصور سے سخت مغموم ہو گئیں۔ یکدم اس کے دل میں اللہ نے یہ خیال القا کر دیا کہ اس بچے کو ایک تابوت میں بند کردے، پھر اس تابوت کو دریائے نیل کی موجوں کے سپرد کر دیا جائے۔ اس طرح ایک تو بچہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہونے کی اذیت سے بچ جائیں گے دوسرے ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس بچے کی زندگی کو کوئی صورت پیدا کر دے۔ تابوت کا فرعون کے سامنے پیش کیا جانا: تابوت کو دریا کی موجوں کے سپرد کیے جانے تک کا کام تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی ماں نے سر انجام دیا۔ اس کے بعد سب کام اللہ تعالیٰ کے اپنے کارنامے ہیں۔ اور سیدنا موسیٰ پر احسانات ہیں، دریا کی موجوں نے تابوت کو دریائے نیل کی اس شاخ کی طرف دھکیل دیا جس پر فرعون کا محل تھا۔ اس مقام پر ایک لہر اٹھی جس نے اس تابوت کو ساحل پر فرعون کے محل کے پاس پھینک دیا۔ پھر اتفاق کی بات کہ تابوت اس فرعون کے سامنے پیش کیا گیا جو اے موسیٰ! میرا بھی دشمن تھا اور تمھارا بھی دشمن تھا، میرا اس لیے کہ وہ نافرمان تھا اور میرے مقابلہ پر اپنی خدائی کا دعویدار بن بیٹھا تھا اور تمھارا اس لیے کہ وہ تمھیں جان سے ہی ختم کر دینا چاہتا تھا۔ پھر میں نے تمھاری ایسی پیاری صورت بنا دی تھی کہ جو بھی تمھیں دیکھتا تمھیں پیار کرنے لگتا تھا اور اس کا دل تمھاری محبت سے بھر جاتا تھا۔ یہی بات تمھاری زندگی کا ذریعہ بن گئی اور یہ سب کچھ میری نگرانی اور میرے ارادے سے ہو رہا تھا۔