وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَيُّ الْفَرِيقَيْنِ خَيْرٌ مَّقَامًا وَأَحْسَنُ نَدِيًّا
اور جب ان کے سامنے ہماری صریح آیتوں کی تلاوت (٤٥) کی جاتی ہے تو اہل کفر ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ ہم دونوں گروہوں میں سے مقام و مرتبہ اور مجلس کے اعتبار سے کون زیادہ اچھا ہے۔
کثرت مال فریب زندگی: آخرت کے منکروں اور دنیا دار لوگوں کا عمومی نظریہ یہ ہوتا ہے کہ اس دنیا میں مال و دولت کا مہیا ہونا اللہ تعالیٰ کی مہربانی کی دلیل ہے۔ اور اسی مال و دولت اور جاہ و منصب کے پیمانوں سے لوگوں کی قیمت کا اندازہ لگاتے ہیں۔ مشرکین مکہ کا بھی یہی انداز فکر تھا انھیں جب ان کے انجام سے مطلع کیا جاتا تو ان کا یہ جواب ہوتا تھا کہ ہمارے مکانات، فرنیچر، طرز بودوباش اور ہماری مجالس تم لوگوں سے بہتر نہیں؟ اور اگر ہم باطل پر ہوتے تو جیسا کہ تم ہمیں کہتے ہو تو ہم تم سے ہر لحاظ سے بہتر کیسے ہو سکتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَا اِلَيْهِ﴾ (الاحقاف: ۱۱) ’’کافروں نے کہا: یہ دین بہتر ہوتا تو اسے پہلے ہم مانتے یا یہ؟‘‘ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے بھی یہ کہا تھا ارشاد ہے: ﴿قَالُوْا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَ اتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَ﴾ (الشعراء: ۱۱۱) ’’تیرے ماننے والے تو سب غریب محتاج لوگ ہیں ہم تیرے تابعدار نہیں بن سکتے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے نظریے کو رد کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ معیار ہی غلط ہے۔ تفسیر طبری میں ہے کہ ان سے پہلے ان سے بھی ظاہر داری میں بڑھے ہوئے اور مالداری میں آگے نکلے ہوئے لوگ تھے لیکن ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ہم نے انھیں تہس نہس کر دیا۔ ان کی مجلسیں، ان کے مکانات، ان کی قوتیں، ان کی مالداریاں ان سے سوا تھیں۔ شان و شوکت میں ٹیپ ٹاپ میں تکلفات میں امارت اور شرافت میں ان سے کہیں زیادہ تھے، ان کے تکبر اور عناد کی وجہ ہم نے ان کا بھس اُڑا دیا۔ انھیں غارت اور برباد کر دیا، فرعونیوں کو دیکھ لو۔ ان کے باغات، ان کی نہریں، ان کی کھیتیاں ان کے شاندار مکانات اور عالیشان محلات اب تک موجود ہیں اور وہ غارت کر دیے گئے۔ مچھلیوں کا لقمہ بن گئے۔