سورة مريم - آیت 66

وَيَقُولُ الْإِنسَانُ أَإِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور انسان کہتا ہے (٤٢) کہ کیا جب میں مرجاؤں گا تو قبر سے زندہ نکالا جاؤں گا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

منکرین قیامت کی سوچ: بعض منکرین قیامت، قیامت کا آنا اپنے نزدیک محال سمجھتے تھے اور موت کے بعد کا جینا ان کے خیال میں ناممکن تھا۔ وہ قیامت اور اس دن کی دوسرے اور نئے سرے کی زندگی کاحال سن کر سخت تعجب کرتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا ءَاِنَّا لَفِيْ خَلْقٍ جَدِيْدٍ﴾ (الرعد: ۵) ’’اگر تجھے تعجب ہے۔ تو ان کا یہ قول بھی تعجب سے خالی نہیں کہ یہ کیا، ہم جب مر کر مٹی ہو جائیں گے کیا پھر ہم نئی پیدائش میں پیدا کیے جائیں گے؟‘‘ اور فرمایا: ﴿اَوَ لَمْ يَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ۔ وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِيَ خَلْقَهٗ قَالَ مَنْ يُّحْيِ الْعِظَامَ وَ هِيَ رَمِيْمٌ﴾ (یٰسٓ: ۷۷۔ ۷۸) ’’کیا انسان اسے نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا پھر وہ ہم سے صاف صاف جھگڑا کرنے لگا اور ہم پر یہی باتیں بنانے لگا اور اپنی پیدائش کو بھلا کر کہنے لگا کہ ان ہڈیوں کو جو گل سڑ گئی ہیں کون زندہ کرے گا۔‘‘