لَّا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغْوًا إِلَّا سَلَامًا ۖ وَلَهُمْ رِزْقُهُمْ فِيهَا بُكْرَةً وَعَشِيًّا
اس میں وہ لوگ کوئی لغو بات نہیں سنیں گے صرف ایک دوسرے کو سلام کرتے ہوئے سنیں گے اور اس میں صبح و شام ان کی روزی انہیں ملتی رہے گی۔
لغو سے مراد: بے ہودہ بات یعنی جھوٹی بات، غیبت، چغلی، تمسخر وفتنہ یا شرارت کی بات، بے معنی بات، گندی اور شہوانیت کی بات اور گالی گلوچ وغیرہ سب اس میں شامل ہے۔ گویا جنت کا معاشرہ ایسا پاکیزہ معاشرہ ہوگا کہ ان باتوں میں سے کوئی بات وہاں نہ پائی جائے گی۔ وہاں صرف مبارک سلامت کی دھوم ہوگی۔ خصوصاً فرشتوں کی زبان سے یہی پاک صدائیں چاروں طرف گونجتی رہیں گی، چنانچہ ارشاد ہے: ﴿لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّ لَا تَاْثِيْمًا۔ اِلَّا قِيْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا﴾ (الواقعۃ: ۲۵۔ ۲۶) ’’وہاں کوئی بے ہودہ اور خلاف طبع سخن نہ سنیں گے بجز سلام اور سلامتی کے۔‘‘ صبح شام پاک، طیب، عمدہ، خوش ذائقہ روزیاں بلاتکلف و تکلیف، بے مشقت و زحمت چلی آئیں گی۔ اہل جنت آپس میں پیار، محبت اور خلوص سے رہیں گے جو ہر طرح کے معاشرتی عیوب سے پاک ہوگا۔ روحانی غذائیں: جیسے تسبیح و تہلیل اور ذکر و اذکار اور جسمانی بھی۔ ان دونوں طرح کی غذاؤں کا ذکر کتاب و سنت میں بکثرت موجود ہے۔ امام احمد نے اس کی تفسیر میں کہا ہے کہ جنت میں رات اور دن نہیں ہوں گے صرف اُجالا ہی اجالا اور نور ہی نور ہوگا۔ ایک حدیث میں ہے کہ جنت میں داخل ہونے والے پہلے گروہ کی شکلیں چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوں گی وہاں انھیں تھوک آئے گا نہ ناک آئے گا نہ پیشاب نہ پاخانہ۔ ان کے برتن اور فرنیچر سونے کے ہوں گے، ان کا آب خورہ، خوشبودار (لکڑی) ہوگی۔ ان کا پسینہ کستوری (کی طرح) ہو گا ہر جنتی مرد کی دو بیویاں ایسی ہوں گی کہ ان کی پنڈلیوں کا گودا ان کے گوشت کے پیچھے سے نظر آئے گا ان کے حسن و جمال کی وجہ سے۔ ان میں باہم بُغض اور اختلاف نہیں ہوگا، ان کے دل ایک دل کی طرح ہوں گے۔ صبح و شام اللہ کی تسبیح کریں گے۔ (مسند احمد: ۲/ ۳۱۶، بخاری: ۳۲۴۵)