أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩
یہی وہ انبیاء (٣٦) ہیں جن پر اللہ نے اپنا خاص انعام کیا تھا، جو آدم کی اولاد اور ان کی اولاد سے تھے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا اور جو ابراہیم اور یعقوب کی اولاد سے تھے اور وہ ان میں سے تھے جنہیں ہم نے ہدایت دی تھی اور جنہیں ہم نے چن لیا تھا، جب ان کے سامنے رحمن کی آیتوں کی تلاوت ہوتی تھی تو سجدہ کرتے ہوئے اور روتے ہوئے زمین پر گر جاتے تھے۔
انبیاء کی جماعت کا ذکر: مذکورہ بالا انبیاء میں صرف سیدنا ادریس علیہ السلام ہیں جو نوح علیہ السلام سے پہلے مبعوث ہوئے لہٰذا آپ صرف اولاد آدم سے ہوئے، باقی سب یا تو نوح علیہ السلام کی اولاد سے تھے یا ان لوگوں کی اولاد سے جو نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے تھے اور سلسلہ نبوت یوں چلتا ہے کہ آدم کی پیدایش سے پہلے یہ سلسلہ نبوت جنوں میں تھا اور پھر چونکہ آدم اشرف المخلوقات تھے تو سلسلہ نبوت سیدنا آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کی طرف منتقل ہو گیا۔ پھر یہ سلسلہ نوح اور اولاد نوح علیہ السلام سے مختص ہوا پھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد سے، پھر اس کے بعد یہ سلسلہ اسرائیل (یعقوب) کی اولاد سے مختص ہوا۔ صرف نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے تھے۔ اور ان انبیاء پر یہ انعام اس لیے ہوا کہ یہی لوگ اپنے اپنے دور کی بہترین شخصیات تھے اور ان لوگوں کا یہ حال تھا کہ جب انھیں اللہ کی آیات سنائی جاتیں تو ان کے دلوں پر رقت طاری ہو جاتی۔ اللہ کے انعامات کو یاد کرکے ان کے سر جھکے جاتے تھے پھر وہ اللہ سے ہر وقت ڈرتے بھی رہتے تھے اور اللہ کی آیات سنتے تو ان کے ڈر میں مزید اضافہ ہو جاتا اور وہ روتے ہوئے اللہ کے سامنے سربسجود ہو جاتے تھے۔