وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا
اور آپ قرآن میں ادریس کا ذکر (٣٥) کیجیے، وہ بیشک بڑے سچے نبی تھے۔
حضرت ادریس علیہ السلام، سیدنا نوح علیہ السلام سے بہت پہلے مبعوث ہوئے تھے آپ کا مرکز تبلیغ بابل تھا آپ کی قوم ستارہ پرست اور مظاہر پرست تھی۔ آپ علم ہندسہ، حساب اور نجوم میں ماہر تھے۔ نیز قلم سے لکھنا، کپڑے سینا، ناپ تول کے آلات اور اسلحہ کا بنانا انھی کے دور میں شروع ہوا۔ آپ بلند پایہ خطیب تھے، اور ہر مس الہراسہ کا خطاب پایا۔ آپ کی قوم نے آپ کی دعوت ماننے سے انکار کر دیا اور مخالفت پر اتر آئے آخر آپ ہجرت کرکے مصر چلے آئے جہاں بہت سے لوگ آپ پر ایمان لے آئے۔ معراج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ سے چوتھے آسمان پر ملاقات ہوئی تھی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ درزی تھے سوئی کے ایک ٹانکے پر سبحان اللہ کہتے۔ شام کو ان سے زیادہ نیک عمل آسمان پر کسی اور کے نہ چڑھتے مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں۔ شام کو ان سے زیادہ عمل آسمان پر کسی کے نہ چڑھتے۔کہتے ہیں حضرت ادریس علیہ السلام آسمانوں پر چڑھا لیے گئے۔ آپ مرے نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح بے موت اُٹھا لیے گئے اور وہیں انتقال کر گئے۔ حسن رحمہ اللہ کہتے ہیں بلند مکان سے مراد جنت ہے۔ (ابن کثیر: ۳/ ۳۶۶)