وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا
اور آپ قرآن میں ابراہیم کو یاد (٢٣) کیجیے وہ بیشک سچے کردار کے اور نبی تھے۔
مشرکین مکہ جو بت پرست ہیں اور اپنے آپ کو دین ابراہیمی کا پیروکار بتاتے ہیں ان کے سامنے اے نبی! خود ابراہیم( علیہ السلام ) کا واقعہ بیان کیجیے۔ اس سچے نبی نے اپنے باپ کی بھی پروا نہ کی اور اس کے سامنے بھی حق کو واضح کر دیا اور اسے بت پرستی سے روکا۔ صاف کہا کہ کیوں ان بتوں کی بوچا کرتے ہو جو نفع پہنچا سکیں نہ نقصان۔ فرمایا کہ بے شک میں آپ کا بیٹا ہوں مگر جو الٰہی علم میرے پاس ہے آپ کے پاس نہیں۔ آپ میری اتباع کیجیے میں آپ کو راہ راست دکھاؤں گا برائیوں سے بچا کر بھلائیوں کی طرف لے جاؤں گا۔ ابراہیم علیہ السلام راست باز تھے۔ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہ بولا سوائے تین مرتبہ کے۔ دو مرتبہ تو اللہ کے واسطے ان کا یہ کہنا کہ (اِنِّی سَقِیْمٌ اور یہ کہنا کہ بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ ھٰذَا) بلکہ اس کام کو ان کے بڑے نے کیا ہے تم اپنے خداؤں سے ہی پوچھ لو۔ سورہ الانبیاء ۶۳ میں ہے کہ یہ دونوں جھوٹ اللہ کے لیے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دن وہ اور ان کی بیوی سارہ اس حال میں جا رہے تھے کہ ایک ظالم بادشاہ پر ان کا گزر ہوا۔ کسی نے بادشاہ سے کہا کہ یہاں ایک شخص آیا ہے جس کے ساتھ اس کی خوبصورت بیوی بھی ہے۔ اس بادشاہ نے سیدنا ابراہیم کو بلوا بھیجا اور سارہ کی بابت پوچھا کہ یہ کون ہے؟ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہہ دیا۔ ’’یہ میری بہن ہے‘‘ پھر وہ سارہ کے پاس گئے اور کہا ’’سارہ! اس وقت روئے زمین پر میرے اور تمھارے سوا کوئی مومن نہیں اور اس ظالم نے مجھ سے پوچھا تھا تو میں نے کہہ دیا کہ یہ میری (دینی) بہن ہے۔ پس تم مجھے جھوٹا نہ کرنا۔‘‘ (بخاری: ۳۳۵۸) ان تین جھوٹوں میں سے دو کا ذکر تو قرآن کریم میں موجود ہے (۱) چنانچہ انھوں نے قوم کے بتوں کو توڑا لیکن پوچھنے پر کہہ دیا کہ اس بڑے بُت نے انھیں توڑا ہے۔ (۲) جب ان کی قوم جشن منانے کے لیے نکلی اور آپ کو ساتھ لے جانے کو کہا تو آپ نے کہہ دیا کہ میں بیمار ہوں۔ پھر اسی وقت جا کر ان کے بُت بھی توڑ ڈالے، یہ جھوٹ کو آپ نے مشرکین پر حجت قائم کرنے اور کلمہ حق بلند کرنے کے لیے بولے اور تیسرا جھوٹ اپنی جان بچانے کی خاطر بولا۔ شاہ مصر کا دستور یہ تھا کہ وہ حسین عورت کو زبردستی چھین لیتا تھا۔ اگر اس کے ساتھ اس کا خاوند ہوتا تو اُسے مروا ڈالتا اور اگر اس کے ساتھ بھائی یاکوئی رشتہ دار ہوتا تو اس عورت تو چھین لیتا مگر اس کی جان سے درگزر کرتا۔ جان بچانے کے لیے تو اللہ نے کلمہ کفر کہنے تک کی اجازت دے رکھی۔ بشرطیکہ دل میں کوئی ایسی بات نہ ہو۔ جان بچانے کے لیے اگر مردار کھا لینا جائز ہے تو جھوٹ بولنا کیوں جائز نہیں ہو سکتا۔