قَالَ مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا
ذوالقرنین نے کہا، میرے رب نے مجھے جو قدرت دے تکھی ہے وہ (تمہارے معاوضہ سے) بہتر ہے، پس تم لوگ اپنی جسمانی طاقت سے میری مدد کرو تاکہ میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک موٹی اور مضبوط دیوار بنا دوں۔
ذوالقرنین نے جواب دیا کہ مجھے تمھارے مال کی ضرورت نہیں اللہ کا دیا سب کچھ میرے پاس ہے ہاں تم اپنی قوت و طاقت اور کام کاج سے میرا ساتھ دو۔ تو میں تم کو ایک مضبوط دیوار کھڑی کر دیتا ہوں چنانچہ پہلے لوہے کے بڑے بڑے تختوں کی اوپر نیچے تہیں جمائی گئیں جب ان کی بلندی دونوں طرف کی گھاٹیوں تک پہنچ گئی تو لوگوں کو حکم دیا کہ خوب آگ دھونکو اور اس کام کے لیے لکڑی اور کوئلہ استعمال میں لایا گیا جب لوہا آگ کی طرح سرخ ہو گیا تو پگھلا ہوا تانبا اوپر سے ڈالا گیا جو لوہے کی چادروں کی درزوں میں جم کر پیوست ہو گیا اور یہ سب کچھ مل کر پہاڑ سا بن گیا بظاہر ایسی دیوار کی تعمیر ایک حیران کن اور بالخصوص اس دور میں ایک خرق عادت واقعہ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم احرام مصر اور ان کے دور کے طرزِ تعمیر کی طرف نظر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں ایسے ایسے آلات تعمیر پائے جاتے تھے کہ جن کا آج تصور بھی نہیں ہو سکتا۔