حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِندَهَا قَوْمًا ۗ قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَن تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا
یہاں تک کہ جب وہ آفتاب ڈوبنے کی جگہ (٥٣) پہنچ گیا تو اسے گرم کیچڑ کے ایک چشم میں ڈوبتا ہوا پایا اور وہاں سے ایک قوم ملی ہم نے کہا، اے ذوالقرنین ! (تمہیں اختیار ہے) یا تو انہیں تم عذاب دو یا ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تبع اور ذوالقرنین کے بارہ میں میں نہیں جانتا کہ وہ نبی تھے یا نہیں۔ (مستدرک حاکم: ۱/ ۳۶) ذوالقرنین کی پہلی مہم: ذوالقرنین نے پہلا سفر مغربی آخری حد تک کیا، ذوالقرنین جب مغربی جہت میں ملک پر ملک فتح کرتا ہوا اس مقام پر پہنچ گیا جہاں آخری آبادی تھی وہاں گدلے پانی کا چشمہ یا سمندر تھا جو نیچے سے سیاہ معلوم ہوتا تھا اسے ایسا محسوس ہوا کہ گویا سورج اس چشمے میں ڈوب رہا ہے۔ ساحل سمندر سے یا دور سے جس کے آگے حد نظر تک کچھ نہ ہو غروب شمس کا نظارہ کرنے والوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سورج سمندر میں یا زمین میں ڈوب رہا ہے۔ حالانکہ وہ اپنے مقام آسمان پر ہی ہوتا ہے۔ وہاں جس قوم سے ذوالقرنین کا واسطہ پڑا وہ جاہل اور کافر قسم کے لوگ تھے اور اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو یہ اختیار دیا کہ چاہے تو انھیں قتل کر دے یا کوئی سخت رویہ اختیار کرے یا اللہ کے فرمانبردار بن جانے کی دعوت دے اور ان سے نرم برتاؤ کرے۔