وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنزٌ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنزَهُمَا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۚ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ۚ ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا
اور وہ دیوار، اس شہر میں رہنے والے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان دونوں کا خزانہ تھا اور ان کا باپ نیک آدمی تھا، تو تمہارے رب نے چاہا کہ وہ بھرپور جوان ہوجائیں اور اپنا خزانہ نکال لیں، یہ آپ کے رب کی ان کے لیے رحمت تھی، اور یہ سارے کام میں نے اپنی رائے سے نہیں کیے ہیں، یہی تاویل ہے ان باتوں کی جن پر آپ صبر نہیں کرسکے تھے۔
اس دیوار کو درست کرنے میں مصلحت الٰہی یہ تھی کہ یہ اس شہر کے دو یتیموں کی تھی اس کے نیچے ان کا مال دفن تھا۔ اگر دیوار کسی وقت گر پڑتی تو خزانہ ظاہر ہو جاتا۔ بدنیت لوگ اس پر قبضہ کر لیتے یا اٹھا لے جاتے اور ان یتیموں کے ہاتھ کچھ بھی نہ لگتا اب یہ بڑ ے ہو کر خود اپنے باپ کی دفن شدہ دولت نکال کر اپنے استعمال میں لا سکیں گے۔ اللہ کی مصلحتیں اللہ ہی جانتا ہے۔ مندرجہ بالا تینوں واقعات سے دراصل مشیت الٰہی کے کاموں میں پوشیدہ حکمتوں پر روشنی پڑتی ہے۔ کشتی والوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر کو پردیسی سمجھ کر ان سے کرایہ نہیں لیا اور کشتی میں سوار کر لیا۔ جس کے صلہ میں خضر نے بظاہر غلط کام کیا لیکن دراصل انھوں نے ان کی خیر خواہی کی اور ان کے احسان کا بدلہ چکا دیا اور بڑے نقصان سے بھی بچا لیا۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اللہ کی قضا پر راضی رہے، رب انجام کو جانتا ہے۔ اور ہم اس سے غافل ہیں مومن جو کام اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ اس کی پسند سے وہ اچھا ہے جو اللہ اس کے لیے پسند فرماتا ہے۔ (تفسیر طبری) دوسرا واقعہ صدمہ کے لحاظ سے شدید تر ہے، لیکن اس میں اللہ کی جو مصلحت پوشیدہ تھی وہ منفعت کے لحاظ سے پہلے واقعہ کی نسبت بہت زیادہ تھی اور دونوں واقعات سے یہ سبق ملتا ہے کہ مسلمانوں کو صبر کرنا اور مشیت الٰہی پر راضی رہنا چاہیے۔ تیسرے واقعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نیک آدمی کی وفات کے بعد بھی اللہ تعالیٰ اس کا اچھا بدلہ اس کی اولاد کو دیا کرتا ہے۔ مرنے والا چونکہ نیک انسان تھا لہٰذا اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوا کہ اس کا مدفون خزانہ یا ورثہ دوسرے لوگ نہ اڑالے جائیں بلکہ اس کی اولاد کے ہی حصہ میں آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کا نام خضر اس لیے ہوا کہ ایک بار وہ سفید خشک گھاس پر بیٹھے تھے، جب اٹھے تو دیکھا کہ گھاس سر سبز ہو کر لہلہا رہی ہے۔ (بخاری: ۳۴۰۲)