وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا
اور جب موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا (٣٧) کہ میں سفر جاری رکھوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پہنچ جاؤں یا مدت دراز تک چلتا رہوں گا۔
یہاں سے اب قصہ موسیٰ علیہ السلام اور خضر کا آغاز ہو رہا ہے جو قریش کا دوسرا سوال تھا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا اپنے آپ کو سب سے بڑا عالم قرار دینا: اس آیت کی تشریح میں صحیح بخاری کی حدیث میں آتا ہے کہ سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہا کہ نوف بکالی (کعب احبار کا بیٹا) کہتا ہے کہ جو موسیٰ( علیہ السلام ) خضر سے ملنے گئے تھے وہ بنی اسرائیل کے موسیٰ( علیہ السلام ) نہ تھے، (بلکہ وہ موسیٰ بن افرثیم بن یوسف تھے) تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کہنے لگے وہ اللہ کا دشمن جھوٹ بکتا ہے، میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا (سامعین میں سے) کسی نے پوچھا’’اس وقت لوگوں میں سے سب سے زیادہ عالم کون ہے؟‘‘ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ’’میں‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب فرمایا کیونکہ انھیں یہ بات اللہ کے حوالے سے کرنی چاہیے تھی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی کی کہ دو دریاؤں کے سنگم پر میرا ایک بندہ (خضر) ہے جو تم سے زیادہ عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی ’’میں اسے کیسے مل سکتا ہوں؟‘‘ فرمایا اپنے ساتھ ایک مچھلی اپنی زنبیل میں رکھ لو۔ جہاں وہ مچھلی گم ہو جائے وہیں وہ بندہ ملے گا۔‘‘ چنانچہ موسیٰ نے ایک مچھلی اپنی زنبیل میں رکھ لی اور وہ خود اور ان کا خادم یوشع بن نون سفر پر روانہ ہوئے یہاں تک کہ وہ ایک چٹان پر پہنچے وہاں وہ اس چٹان پر اپنا سر رکھ کر سو گئے اس وقت وہ مچھلی زنبیل میں تڑپ کر نکلی اور دریا میں جا گری اور سرنگ کی طرح کا بناہوا راستہ چھوڑ گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس راستہ سے پانی کی روانی کو روک دیا اور وہ راستہ ایک طاق کی طرح دریا میں بنا رہ گیا۔ جب موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے۔ تو ان کا خادم (جو یہ منظر دیکھ رہا تھا) انھیں اس واقعہ کی اطلاع دینا بھول گیا اور وہ پھر سفر پر چل کھڑے ہوئے وہ دن کا باقی حصہ اور رات بھی چلتے رہے۔ دوسرے دن صبح موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا ’’کھانا لاؤ ہم تو اس سفر سے بہت تھک گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’موسیٰ علیہ السلام کو تھکن اس وقت شروع ہوئی جب وہ اس مقام سے آگے بڑھ گئے جہاں تک جانے کا انھیں اللہ نے حکم دیا تھا۔‘‘ یوشع نے موسیٰ علیہ السلام کو جواب دیا: دیکھیے کل جب ہم نے اس چٹان پر دم لیا تھا تو اس وقت وہ مچھلی عجیب طرح کا راستہ بناتی ہوئی دریا میں چلی گئی تھی اور شیطان نے مجھے ایسا بھلایا کہ اس کا ذکر کرنا مجھے یاد ہی نہ رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’مچھلی نے جو سرنگ بنائی تھی وہ ان دونوں کے لیے بڑا باعث تعجب تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا کہ: ’’وہی جگہ تو ہماری منزل مقصود تھی۔‘‘ چنانچہ وہ دنوں اپنے نقوش پا کو دیکھتے دیکھتے واپس اسی چٹان تک آگئے۔ وہاں انھوں نے ایک شخص کو کپڑا اوڑھے دیکھا تو موسیٰ علیہ السلام نے سلام کیا تو سیدنا خضر نے کہا’’تمھارے ملک میں سلام کہاں سے آیا؟‘‘ موسیٰ علیہ السلام نے کہا، ’’میں موسیٰ علیہ السلام ہوں‘‘ سیدنا خضر نے کہا: بنی اسرائیل کے موسیٰ علیہ السلام ؟ موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا ’’میں تمھارے پاس اس لیے آیا ہوں کہ اللہ نے آپ کو بھلائی کی باتیں سکھائی ہیں۔ ان میں سے کچھ مجھے سکھا دیں‘‘ سیدنا خضر نے جواب دیا ’’موسیٰ دیکھو! اللہ تعالیٰ نے اپنے علم میں سے ایک علم مجھے سکھایا ہے۔ جسے آپ نہیں جانتے اور ایک علم آپ کو سکھایا ہے جسے میں نہیں جانتا۔ لہٰذا تم میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کر سکو گے۔ موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا:’’میں ان شاء اللہ صبر کروں گا اور کسی معاملہ میں آپ سے اختلاف نہ کروں گا۔‘‘ سیدنا خضر نے کہا: اگر میرے ساتھ چلنا ہے تو پھر مجھ سے کوئی بات نہ پوچھنا تاآنکہ میں خود ہی اس کی حقیقت آپ سے بیان نہ کردوں۔ سیدنا خضر سے جب ان دونوں کی ملاقات ہوگئی اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا خضر میں ابتدائی مکالمہ ہو گیا تو اس کے بعد سیدنا یوشع کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ شاید سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے سیدنا یوشع کو واپس بھیج دیا ہو۔ اس بندے سے مراد حضرت خضر ہیں۔ صحیح احادیث میں صراحت ہے۔ خضر کے معنی سرسبز و شاداب کے ہیں، یہ ایک مرتبہ سفید زمین پر بیٹھے تو وہ حصہ زمین ان کے نیچے سے سرسبز ہو کر لہلانے لگا اسی وجہ سے ان کا نام خضر پڑ گیا۔ (بخاری: ۴۷۲۵)