سورة البقرة - آیت 213

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پہلے سبھی لوگ ایک دین پر قائم تھے (301) (پھر مرور زمانہ کے ساتھ ان میں اختلاف ہوگیا) تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو مبعوث فرمایا، جن کا کام لوگوں کو جنت کی خوشخبری دینا، اور عذاب نار سے ڈرانا تھا، اور ان کے ساتھ برحق کتابیں نازل کیں، تاکہ اللہ لوگوں کے درمیان اس بات میں فیصلہ کردے جس میں انہوں نے آپس میں اختلاف کیا، اور اس میں اختلاف ان لوگوں نے کیا جنہیں کتاب دی گئی تھی، اور کھلی نشانیاں آجانے کے باوجود صرف آپس کی دشمنی اور عناد کی وجہ سے اختلاف کی، تو اللہ نے اپنے فضل و کرم سے اہل ایمان کی اس مختلف فیہ بات میں حق کی طرف رہنمائی کی، اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

انسانی زندگی کا آغاز توحید سے ہوا : حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت نوح علیہ السلام تك یعنی دس صدیوں تک لوگ توحید پر جس کی تعلیم انبیاء دیتے رہے، قائم رہے۔ پھر اس کے بعد شیطان کے وسوسہ اندازی اور انسان کی قوت ارادہ و اختیار کا غلط استعمال ہوا کہ ان میں سے عیار لوگوں نے اپنے دنیوی مفادات کی خاطر کچھ غلط عقائد گھڑ کر عوام الناس میں اختلاف پیدا کیا پھر شرک اور مظاہر پرستی عام ہوگئی۔ جب لوگوں میں شرک نے کئی دوسری اخلاقی قدروں کو بھی بگاڑنا شروع کردیا تو اللہ تعالیٰ نے پھر سے انبیاء کو مبعوث فرمانا شروع کردیا۔ ہر نبی کی تعلیم ایک ہی تھی کہ کائنات کا خالق و مالک اور رازق صرف ایک اللہ ہے لہٰذا وہی بندگی کے لائق ہے پھر جو لوگ اللہ کا حکم مان کر اس کے احکام کی تعمیل کریں گے انھیں اچھا بدلہ ملے گا اور جو نافرمان اور مشرک ہونگے انھیں سزا بھی ملے گی۔ اختلاف امت اور فرقہ پرستی: اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کے ساتھ سچی کتابیں بھی نازل فرمائیں تاکہ لوگ ان سے علم حاصل کرسکیں لیکن جب تک قوم مجموعی طور پر متحد و متفق رہتی ہے اس پر عروج رہتا ہے اور جب اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں جو فرقہ بندی کی بنیاد ہے تو سمجھیے کہ زوال شروع ہوگیا۔ اختلاف اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ کتاب اللہ میں حق بات کی پوری وضاحت نہیں ہوتی بلکہ اختلاف کے محرکات کچھ اور ہوتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متعدد بار ایک جامع لفظ’’ بَغْيًۢا بَيْنَهُمْ‘‘ان فرمایا ہے۔ یعنی بعض لوگ حق کو جاننے کے باوجود اپنے حق سے بڑھ کر اختیارات فوائد اور منافع حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنے سے دریغ نہیں کرتے تاکہ ان کا اپنا جھنڈا بلند ہو ۔ بعض لوگ اپنے آبا ؤ اجداد کے دین کو اصل دین قراردے دیتے ہیں اور اس پر چمٹے رہتے ہیں۔ بعض کسی امام کے قول کو حکم الٰہی پر ترجیح دینے پر اصرار کرتے ہیں جس سے نئے نئے فرقے وجود میں آتے ہیں اور ملت پارہ پارہ ہوجاتی ہے ۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نیا نبی مبعوث فرماتے ہیں جو لوگوں کو حق کا راستہ دکھاکر نئی امت تشکیل دیتا ہے۔ مگر اُمت محمدیہ میں اب کوئی نبی نہیں آئے گا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی ہے کہ میری امت میں ایک فرقہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا تا آنکہ قیامت آجائے۔ صحابہ نے عرض کیا وہ کونسا فرقہ ہوگا فرمایا جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔‘‘(مسند احمد: ۳/ ۳۴۵، ح: ۱۴۷۲۰) آج بھی فرقہ پرستی کا یہی علاج ہے کہ تمام تعصبات کو چھوڑ کر کتاب و سنت کی طرف رجوع کیا جائے۔