وَيَوْمَ يَقُولُ نَادُوا شُرَكَائِيَ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُمْ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُم مَّوْبِقًا
اور جس دن اللہ کہے گا کہ تم لوگ میرے ان شریکوں کو پکارو (٢٩) جنہیں میرے شریک سمجھتے تھے، تو وہ انہیں پکاریں گے لیکن وہ ان کی پکار کا جواب نہیں دیں گے اور ہم ان کے درمیان ہلاکت گاہ کو حائل کردیں گے۔
مشرک قیامت کو شرمندہ ہوں گے۔ تمام مشرکوں کو قیامت کے دن شرمندہ کرنے کے لیے سب کے سامنے کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو پکارو جنھیں تم دنیا میں پکارتے رہے تاکہ وہ تمھیں آج کے دن کی مصیبت سے بچا لیں۔ وہ انھیں پکاریں گے لیکن کہیں سے کوئی جواب نہ آئے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ تَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْ وَ مَا نَرٰى مَعَكُمْ شُفَعَآءَكُمُ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِيْكُمْ شُرَكٰٓؤُا لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَ ضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ﴾ (الانعام: ۹۴) ہم تمھیں اسی طرح تنہاتنہا لائے جیسے کہ ہم نے تمھیں اول بار پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تمھیں دنیا میں دے رکھا تھا تم وہ سب اپنے پیچھے چھوڑ آئے آج تو ہم تمھارے ساتھ تمھارے شریکوں میں سے کسی کو نہیں دیکھتے جنھیں تم اللہ کے شریک ٹھہرائے ہوئے تھے اور جن کی شفاعت کا یقین کیے ہوئے تھے، تمھارے اور ان کے درمیان تعلقات ٹوٹ گئے اور تمھارے گمان باطل ثابت ہو چکے۔‘‘ تفسیر طبری میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ مشرکوں اور مسلمانوں میں ہم آڑ کر دیں گے۔