وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۗ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم لوگ آدم کو سجدہ (٢٧) کور، تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا وہ جنوں میں سے تھا تو اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی، کیا پھر بھی تم لوگ اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناؤ گے، حالانہ وہ سب تمہارے دشمن ہیں، شیطان ظالموں کے لیے (اللہ کا) بڑا برا بدل ہے۔
ابلیس فرشتوں کی اصل سے نہیں تھا۔ اگر فرشتہ ہوتا تو اسے اللہ کے حکم سے سرتابی کی مجال نہ ہوتی کیونکہ فرشتوں کی صفت اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے: ﴿لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَا اَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ﴾ (التحریم: ۶) ’’وہ اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جس کا انھیں حکم دیا جاتا ہے۔‘‘ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ فرشتہ نہیں تھا تو پھر تو اللہ کے حکم کا وہ مخاطب ہی نہیں تھا کیونکہ اس کے مخاطب تو فرشتے تھے جنھیں سجدے کا حکم دیا گیا تھا۔ مسلم، کتاب الزید (۲۹۹۶) میں ہے: ’’گو ابلیس فرشتوں کے سے اعمال کر رہا تھا، انھی کی مشابہت کرتا تھا اور اللہ کی رضا مندی میں دن رات مشغول تھا، اسی لیے ان کے خطاب میں یہ بھی شامل ہو گیا۔ لیکن یہ سنتے ہی وہ اپنی اصلیت پر آگیا، تکبر اس کی طبیعت میں سما گیا اور صاف انکار کر بیٹھا، اس کی پیدائش ہی آگ سے تھی جیسے اس نے خود کہا کہ تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور اسے مٹی سے، ابلیس کبھی بھی فرشتوں میں سے نہ تھا وہ جنات کی اصل ہے جیسے کہ حضرت آدم علیہ السلام انسان کی اصل ہیں۔ چونکہ یہ فرشتوں میں شمار ہوتا تھا اس لیے سجدۂ آدم کے حکم کے ساتھ اس کا مخاطب کیا جانا قطعی ہے۔ ابلیس کو دوست بنانا؟ اعتقاداً یا زبانی طو رپر تو کوئی بھی شیطان کو اپنا دوست نہیں کہتا، بلکہ سب اس پر لعنت ہی بھیجتے ہیں مگر عملاً جب انسان اللہ کی بتائی ہوئی راہ کے مقابلے میں دوسری راہیں اختیار کرتاہے اور اس کے حکم کی نافرمانی کرتا ہے تو یہ عملاً شیطان ہی کی پیروی ہوتی ہے۔ کیونکہ نافرمانی اور سرکشی کی روش اسی نے اختیار کی تھی۔ ظالم لوگ کون؟ یہاں ظالموں سے مراد شیطان یا ابلیس کے مطیع فرمان اور اسکے چیلے چانٹے ہیں ۔ اس جملہ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ انسان کو چاہیے تو یہ تھا کہ اپنے پروردگار کی اطاعت کرتے مگر ان ظالموں نے اس کے عوض اپنے ازلی دشمن کی پیروی کی روش اختیار کی۔ دوسرا مطلب یہ کہ ان ظالموں کو بہت برا بدلہ ملنے والا ہے۔ اللہ فرماتے ہیں کہ ابلیس اطاعت الٰہی سے نکل گیا ہے پس تمھیں چاہیے کہ اپنے دشمن سے دوستی نہ کرو۔ اور مجھے چھوڑ کر اس سے تعلق نہ جوڑو۔ جیسے سورہ یٰسین میں قیامت کا، اس کی ہولناکیوں کا اور نیک و بد لوگوں کے انجاموں کا ذکر کرکے فرمایا کہ ’’اے مجرمو! تم آج کے دن الگ ہو جاؤ۔‘‘ یہ مقام بھی بالکل ایسا ہی ہے کہ ظالموں کو بڑا برا بدلہ ملے گا۔