سورة الكهف - آیت 32

وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آپ ان کے سامنے دو آدمی (١٩) کی مثال پیش کیجیئے، دونوں میں سے ایک کو ہم نے انگوروں کے دو باغ دیئے تھے، اور ان دونوں باغوں کو کھجوروں کے گھنے درختوں سے گھیر دیا تھا اور دونوں کے درمیان کھیتی رکھ دی تھی۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

فخر و غرور: اوپر کی آیا ت میں چونکہ مسکین مسلمانوں اور مالدار کافروں کا ذکر ہوا تھا، یہاں ان کی ایک مثال پیش کی جا رہی ہے کہ دو شخص تھے ان میں سے ایک مال دار تھا ۔ انگوروں کے باغ، اردگرد کھجوروں کے درخت، درمیان میں کھیتی، درخت پھل دار، بیلیں ہری، کھیتی سرسبز، پھل پھول بھرپور، نقصان کسی قسم کا نہیں، ادھر اُدھر نہریں جاری ہیں۔ اس کے پاس ہر وقت طرح طرح کی پیداوار موجود تھی۔ الغرض اس نے ایک دن اپنے ایک مفلس ہمسایہ سے فخر و غرور کرتے ہوئے کہا کہ میں مال میں، عزت واولاد میں، جاہ و حشم میں، نوکر چاکر میں تجھ سے زیادہ حیثیت والا ہوں۔ ایک فاجر شخص کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ دنیا کی یہ چیزیں اس کے پاس بکثرت ہوں۔ یہ اپنے باغ میں ہمسایہ کو لیتے ہوئے گیا۔ اپنی جان پرظلم کرتا ہوا، یعنی تکبر، اکڑ او رانکار قیامت اور کفر کرتا ہوا گیا۔ یہ اس قدر مست تھا کہ اس کی زبان سے نکلا کہ ناممکن ہے کہ میری یہ لہلاتی کھیتیاں، یہ پھل دار درخت، یہ جاری نہریں، یہ سرسبز بیلیں کبھی فنا ہو جائیں۔ حقیقت میں یہ اس کی کم عقلی، بے ایمانی، دنیا کی خرمستی اور اللہ کے ساتھ کفر تھا۔ اسی لیے قیامت کا ہی انکار کر دیا۔ پھر ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر قیامت برپا ہوئی بھی تو وہاں بھی وہ مجھے اس سے بہتر عطا فرمائے گا۔ جن کا کفر و سرکشی حد سے تجاوز کر جاتی ہے وہ مست ہو کر ایسے ہی متکبرانہ دعوے کرتے ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿وَّ لَىِٕنْ رُّجِعْتُ اِلٰى رَبِّيْ اِنَّ لِيْ عِنْدَهٗ لَلْحُسْنٰى﴾ (حم السجدۃ: ۵۰) ’’اگر مجھے رب کی طرف لوٹا دیا گیا تو وہاں بھی میرے لیے اچھائیاں ہی ہیں‘‘ اور فرمایا: ﴿اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ كَفَرَ بِاٰيٰتِنَا وَ قَالَ لَاُوْتَيَنَّ مَالًا وَّ وَلَدًا﴾ (مریم: ۷۷) کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کیا اور دعویٰ کیا کہ آخرت میں بھی مجھے مال و اولاد سے نوازا جائے گا۔ اس آیت میں دراصل دنیا دار لوگوں کے اس غلط نظریے کی تردید کی گئی ہے کہ اگر انھیں اس دنیا میں آسودہ حالی مہیا ہے تو یہ اللہ کی ان پر خوشنودی کی دلیل ہے۔ حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے سخت آزمائش میں پڑے ہوئے ہیں کہ آیا وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں یا اس کے نافرمان بن کر رہتے ہیں، لیکن وہ یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ دنیا کی جنت تو ہمیں مل ہی گئی ہے اب اور کون سی جنت ہے جسے حاصل کرنے کی فکر کریں۔