وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا
اور جو لوگ (١٧) صبح و شام اپنے رب کو اس کی رضا جوئی کے لیے پکارتے رہتے ہیں ان کے ساتھ اپنے آپ کو روکے رکھیئے اور دنیاوی زندگی زندگی کی زیب و زینت کی خواہش میں آپ کی آنکھیں ان سے پھر نہ جائیں اور آپ اس آدمی کی پیروی نہ کیجیے جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کی اتباع کرتا ہے، اور جس کی نافرمانی کا معاملہ حد سے تجاوز کرگیا ہے۔
غریب و مخلص مومنوں سے وابستہ رہنے کی ہدایت: یعنی یہ صبح و شام اللہ کے ذکر میں مشغول رہنے والے اور اللہ کی رضا چاہنے والے لوگ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس بیٹھے رہا کرو، خواہ وہ امیر ہوں یا فقیر، خواہ رذیل ہوں خواہ شریف، خواہ قوی ہوں، خواہ ضعیف۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم چھ آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ میرے علاوہ بلال، ابن مسعود، ایک ہذلی اور دو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تھے۔ قریش مکہ نے خواہش ظاہر کی کہ ان لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹا دو تاکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں آیا کہ چلو شاید میری بات سننے سے ان کے دلوں کی دنیا بدل جائے لیکن اللہ تعالیٰ نے سختی کے ساتھ ایسا کرنے سے منع کر دیا۔ (مسلم: ۴۶/ ۲۴۱۳) یعنی یہی لوگ قیمتی سرمایہ ہیں، قریشی سرداروں کے مطالبہ کو اور ان کے ٹھاٹھ باٹھ مت دیکھیے کیونکہ ان کے اس مطالبہ سے ہی یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ ایمان لانے میں کس حد تک مخلص ہیں۔ جو شخص آخرت کی جوابدہی پر ایمان ہی نہیں رکھتا، وہ تو جدھر اور جس طرح بھی اپنا ذاتی مفاد دیکھے گا فوراً ادھر جھک جائے گا۔ اس کا کوئی کام حد اعتدال تک محدود نہ رہے گا۔ لہٰذا ایسے لوگوں کی بات ہرگز نہ مانیے۔