قُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوا ۖ لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ ۚ مَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا
آپ کہہ دیجیے کہ ان کے اس حال میں رہنے کی مدت کو اللہ زیادہ جانتا ہے، آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کو صرف وہی جانتا ہے وہ کیا خوب دیکھنے والا اور کیا خوب سننے والا ہے، بندوں کا اس کے سوا کوئی کارساز نہیں اور وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا ہے۔
یعنی اصحاب کہف کی مدت قیام کا سب سے زیادہ صحیح علم اللہ تعالیٰ کو ہی ہے کیونکہ اس نے خود ہی انھیں سلایا تھا پھر خود ہی جگایا تھا۔ ایسا تصرف و اختیار اللہ کے سوا کسی کو نہیں کہ وہ کسی بات اور واقع کے متعلق صحیح صحیح خبریں دے سکے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب دیکھ اور سن رہا ہے۔ خلق کا خالق، امر کا مالک وہ ہی ہے، کوئی اس کے فرمان کو رد نہیں کر سکتا او رکوئی اس کا وزیر و مددگار نہیں، نہ کوئی اس کا شریک و مشیر ہے۔ وہ ان تمام کمیوں سے پاک ہے۔