سورة البقرة - آیت 210

هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا وہ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے پاس بادلوں کے سائبانوں میں (عذاب لے کر) آجائے اور فرشتے آجائیں اور ان کے معاملے کا فیصلہ ہوجائے اور تمام امور بالآخر اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

قطعی نشانی پر ایمان لانا بے سود ہے: یا تو اس سے قیامت کا منظر مراد ہے ۔ یا وہ یقین مراد ہے جو موت كو سامنے دیكھ كر پیدا ہوتا ہے كہ ایسے وقت پر ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ ایمان لانے کی قدروقیمت تو تب ہے جب انسان غیب کے امور پر ایمان لے آئے اور یہی انسان کی آزمائش ہے ۔ اور یہی اللہ کی مشیت ہے کہ جب کوئی حتمی علامت یعنی سورج کا مغرب سے نکلنا، یا موت یا قیامت آگئی تو پھر تو معاملہ ہی ختم ہوجائے گا۔ اللہ اور فرشتے: اللہ کا دیدار تو حضرت موسیٰ جیسے پیغمبر بھی نہ سہار سکے تو ایك عام انسان کس کھیت کی مولی ہیں۔ رہے فرشتے تو وہ تو اللہ کے حکم سے یا تو عذاب الٰہی لے کر یا موت کا پیغام لیکر آتے ہیں۔ یا نبیوں پر وحی لیکر آتے ہیں اس لیے چاہیے کہ اسلام کو قبول کرنے میں دیر نہ کی جائے تاکہ آخرت سنور جائے۔