سَيَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ ۖ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ ۚ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ ۗ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم مِّنْهُمْ أَحَدًا
عنقریب لوگ کہیں گے کہ وہ تین نوجوان تھے (١٤) چوتھا ان کا کتا تھا، کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ پانچ تھے، چھٹا ان کا کتا تھا، یونہی گمان کرتے ہیں اور کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ سات تھے، اور آٹھواں ان کا کتا، آپ کہہ دیجیے کہ میرا رب ان کی صحیح تعداد زیادہ جانتا ہے، بہت کم لوگ انہیں جانتے ہیں، پس آپ ان کے سلسلے میں صرف سرسری بحث کیا کیجئیے، اور کسی سے ان کے بارے میں کوئی بات نہ پوچھیے۔
اصحاب کہف کی تعداد اور بے کار بحثوں سے اجتناب کا حکم: اصحاب کہف کے متعلق ایک بحث یہ بھی چھڑی ہوئی تھی کہ ان کی تعداد کتنی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ان قلیل لوگوں میں سے ہوں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ اصحاب کہف کی تعداد جانتے ہیں اور وہ سات تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تین اور پانچ کہنے والوں کو ذکر کرنے کے بعد ’’رَجْمًا بِالْغَیْبِ‘‘ کا لفظ فرمایا ہے۔ مگر سات کہنے والوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا ہے۔ بعض علماء نے اور بھی کئی اعتبار سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ فی الواقع سات ہی تھے اور آٹھواں ان کا کتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بحث میں دلچسپی لینے سے منع فرما دیا اور یہ بھی فرما دیا کہ یہ بات کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آپ کے سامنے بیان فرما دیا ہے یہ جھوٹ سے پاک ہے۔ شک و شبہ سے دور ہے۔ قابل ایمان و یقین ہے۔ بس یہی حق ہے اور سب پر مقدم ہے۔