وَكَذَٰلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوا أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَا إِذْ يَتَنَازَعُونَ بَيْنَهُمْ أَمْرَهُمْ ۖ فَقَالُوا ابْنُوا عَلَيْهِم بُنْيَانًا ۖ رَّبُّهُمْ أَعْلَمُ بِهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا
اور اس طرح ہم نے لوگوں کو ان کی خبر (١٣) کردی تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور یہ کہ قیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے، اس وقت لوگ ان کے معاملے میں آپس میں جھگڑنے لگے، کچھ لوگوں نے کہا کہ تم لوگ ان کے اوپر ایک مکان بنا دو، ان کا رب ان کے حال سے زیادہ واقف ہے، جو لوگ ان کے معاملے میں (دوسروں پر) غالب آگئے، انہوں نے کہا کہ ان کے اوپر ایک مسجد بنائیں گے۔
دوبارہ زندہ کرنے کی دلیل: اصحاب کہف کے واقعے سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ان کے حال پر آگاہ کر دیا تاکہ اللہ کے وعدے اور قیامت کے آنے کی سچائی کا انھیں علم ہو جائے منکرین کے لیے اس واقعے میں اللہ کی قدرت کا ایک نمونہ موجود ہے۔ کہتے ہیں اس زمانے میں لوگوں کو قیامت کے آنے میں کچھ شبہات پیدا ہو چلے تھے ایک جماعت کہتی تھی کہ فقط روحیں دوبارہ جی اُٹھیں گی جسم کا اعادہ نہ ہوگا پس اللہ تعالیٰ نے صدیوں بعد اصحاب کہف کو جگا کر قیامت کے ہونے اور جسموں کے دوبارہ جینے کی حجت واضح کر دی اور ایک عینی دلیل دے دی۔ ایک قول یہ ہے کہ جب ان میں ایک نوجوان دام لے کر سودا خریدنے کو غار سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ان کی دیکھی ہوئی ایک چیز نہیں سارا نقشہ بدلا ہوا ہے۔ زمانے گزر چکے تھے بستیاں بدل چکیں تھیں، جبکہ یہ نوجوان ابھی تک یہ سمجھے ہوئے تھے کہ انھیں اس غار میں پہنچے ہوئے صرف ایک آدھ دن گزرا ہے۔ یہ اپنے دل میں حیران تھا اور دماغ چکرا رہا تھا کہ کل شام ہم اس شہرکو چھوڑ کرگئے ہیں یہ دفعتًا کیا ہو گیا؟ کیا میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ مگر کسی بات پر تسلی نہ ہوئی آخر کار ایک دوکان پر جا کر اس نے دام دیے اور کھانے پینے کی چیزیں طلب کیں۔ دوکاندار نے اس سکے کو دیکھ کر سخت تعجب کا اظہار کیا اپنے پڑوسی کو دیا کہ دیکھنا یہ سکہ کیسا ہے؟ کس زمانے کا ہے؟ اس نے دوسرے کو دیا الغرض وہ تو ایک تماشہ بن گیا ہر ایک کی زبان سے نکلنے لگا کہ اس نے کسی پرانے زمانے کا خزانہ پایا ہے۔ چنانچہ لوگوں نے اس کو گھیر لیا اور مجمع لگا کر کھڑے ہو گئے اور طرح طرح کے سوالات شروع کر دیے آخر کار اسے بادشا کے سامنے پیش کر دیا۔ اس سے سوالات ہوئے تو اس نے سارا واقعہ بیان کر دیا بادشاہ اور سب لوگ حیران و ششدر کھڑے ہو گئے آخر کار سب لوگ اس کے ساتھ ہوئے کہ ہمیں اپنے ساتھی دکھاؤ اور اپنا غار بھی دکھا دو۔ یہ جب غار کے قریب گئے تو نوجوان نے کہا کہ تم ذرا ٹھہرو میں پہلے جا کر خبر کر دوں۔ ان کے الگ ہٹتے ہی اللہ تعالیٰ نے ان پر بےخبری کے پردے ڈال دیے۔ انھیں نہ معلوم ہو سکا کہ وہ کہاں گیا؟ اللہ نے پھر اس راز کو مخفی کر لیا۔ مسجد کی تعمیر بطور یاد گار: اب یہ اصحابہ کہف لوگوں کی نظروں میں بے حد محترم تھے اور اولیاء اللہ سمجھے جانے لگے تھے۔ لوگوں نے خیال کیا کہ یہ سب مقدس ہستیاں تھیں لہٰذا اس غار پر کوئی یادگار عمارت تعمیر کر دینا چاہیے۔ اس بات پر پھر اختلاف ہو گیا کہ یہ یادگار کس قسم کی ہو اور جو لوگ با اثر اور صاحب رسوخ تھے ان کی رائے ہی غالب آئی کہ اس غار کے پاس ایک مسجد یا عبادت خانہ یادگار کے طور پربنا دیا جائے۔ اس طرح اصحاب کہف کو اولیاء اللہ اور غار کو آستانے یا مقبرے کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنا پرانی شرکیہ رسم ہے: سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اُم حبیبہ رضی اللہ عنہا اور اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک گرجے کا ذکر کیا جسے انھوں نے ملک حبشہ میں دیکھا تھا اس میں مورتیاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نے لوگوں کاقاعدہ یہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی صالح آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس میں مورتیاں رکھ لیتے۔ ایسے لوگ قیامت کے دن اللہ کے ہاں سب مخلوق سے بدتر ہوں گے۔ (بخاری: ۴۲۷) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھی اس کی صورت یہ تھی کہ پیچھے قبر، اس کے آگے سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کی رہائش اور اس کے آگے بیرونی دروازہ تھا۔ اور قبر تک سوائے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا یا رشتہ داروں کے علاوہ دوسرے لوگ جاہی نہ سکتے تھے، کیونکہ قبر کے پیچھے پھر دیوار تھی۔ اسی بنا پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے متعلق یہ خدشہ نہ ہوتا کہ کچھ عرصہ گزرنے پر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو سجدہ کرنے لگیں گے تو بغرض زیارت پچھلی دیوار کھول دی جاتی۔ (بخاری: ۴۴۴۱) اور ایک حدیث میں فرمایا: اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے کہ انھوں نے اپنے انبیاء اور اولیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔ (بخاری: ۴۳۶، مسلم: ۳۵۱) سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمام روئے زمین نماز کے قابل ہے سوائے قبرستان اور حمام کے۔ (ترمذی: ۴۱۲، ابو داؤد: ۳۲۵)