وَتَحْسَبُهُمْ أَيْقَاظًا وَهُمْ رُقُودٌ ۚ وَنُقَلِّبُهُمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ ۖ وَكَلْبُهُم بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيدِ ۚ لَوِ اطَّلَعْتَ عَلَيْهِمْ لَوَلَّيْتَ مِنْهُمْ فِرَارًا وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْبًا
اور آپ انہیں بیدار (١١) سمجھتے حالانکہ وہ سوئے ہوئے تھے اور ہم انہیں دائیں اور بائیں پلٹتے رہتے تھے اور ان کا کتا غار کے دہانے پر اپنے دونوں بازو پھیلائے ہوئے تھا، اگر آپ ان کی طرف جھانک لیتے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ پڑتے، اور ان کی کیفیت دیکھ کر خوفزدہ ہوجاتے۔
اگرچہ ان لوگوں پر گہری نیند کا غلبہ تھا تاہم ان کی آنکھیں کھلی رہتی تھیں جس سے دیکھنے والے کو یہ شبہ پڑتا تھا کہ وہ جاگ رہے ہیں سوئے ہوئے نہیں ہیں۔ پھر غار کے دہانے پر ان کا محافظ کتا بھی ایسے بیٹھا تھا جیسے جاگنے کی حالت میں کتے بیٹھتے ہیں اس کی آنکھیں بھی کھلی تھیں۔ ادھر سے کسی کا گزر ہوتا تو اسے یوں معلوم ہوتا کہ شاید غار کے اندر ڈاکو چھپے بیٹھے ہیں اور یہ کتا ان کی رکھوالی کر رہا ہے۔ اگر کوئی ان کے نزدیک گیا تو یہ کتا کاٹ کھانے کو آئے گا۔ اور اس کی آواز سے اس کا مالک خبردار ہو کر ممکن ہے کہ حملہ کر دے، گویا یہ ایسا وحشت ناک منظر تھا کہ وہاں کوئی نزدیک جانے کی جرأت بھی نہ کرتا تھا اور نیند کے اس طویل عرصے کے دوران ان کی کیفیت بالکل ایسی تھی جیسے عام حالت میں ایک سونے والے کی ہوتی ہے۔ اور وہ حسب ضرورت اور بتقاضائے جسم نیند کی حالت میں دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں اپنی کروٹ بدلتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کتا پالتا ہے تو ہر روز اس کی نیکیوں میں سے ایک قیراط کم ہوتا ہے۔ سوائے بکریوں یا کھیتی کے لیے رکھے کتے یا شکاری کتے کے۔ (بخاری: ۲۳۲۲)