سورة الكهف - آیت 15

هَٰؤُلَاءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً ۖ لَّوْلَا يَأْتُونَ عَلَيْهِم بِسُلْطَانٍ بَيِّنٍ ۖ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

ہماری اس قوم نے اللہ کے سوا دوسرے معبود (٨) بنا لیے ہیں تو ان کے معبود ہونے کی کوئی صریح دلیل کیوں پیش نہیں کرتے، پس اس سے بڑح کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کے بارے میں جھوٹ بولتا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

پھر آپس میں مل کر کہنے لگے کہ ہماری قوم مشرک ہے اللہ کے سوا دوسروں کو پکارنے اور ان کی عبادت میں مشغول ہے، جس کی یہ کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے پس یہ ظالم اور کاذب ہیں، کہتے ہیں کہ ان کی اس صاف گوئی اور حق بیانی کی وجہ سے بادشاہ بہت بگڑا، انھیں دھمکایا، ڈرایا اور حکم دیا کہ ان کے لباس اُتار لو اور اگر یہ باز نہ آئے تو میں انھیں سخت سزا دوں گا۔ اب ان لوگوں کے دل اور مضبوط ہو گئے لیکن انھیں یہ معلوم ہو گیا کہ یہاں رہ کر ہم دینداری پر قائم نہیں رہ سکتے اس لیے انھوں نے قوم، وطن، دیس، رشتے اور قبیلہ اور خاندان چھوڑنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ یہی حکم ہر اُس انسان کو ہے جو اپنے دین کو خطرے میں دیکھے تو وہاں سے ہجرت کر جائے۔ اور اب جب کہ تم نے اپنی قوم کے معبودوں سے کنارہ کشی کر لی ہے، تو اب جسمانی طور پر بھی ان سے علیحدگی اختیار کر لو۔ اصحاب کہف نے یہ آپس میں کہا تھا۔ چنانچہ اس کے بعد وہ ایک غار میں جا چھپے۔ جب ان کے غائب ہونے کی خبر مشہور ہوئی تو انھیں تلاش کیا گیا لیکن وہ اسی طرح ناکام رہے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں کفار مکہ غار ثور تک پہنچ جانے کے باوجود، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ موجود تھے، ناکام رہے تھے۔ جب یہ لوگ دین کو بچانے کے لیے اتنی قربانی پر آمادہ ہو گئے تو اللہ نے بھی یہ فرمایا کہ تم پر تمھارے رب کی رحمت کی چھاؤں ہوگی، وہ تمھیں تمھارے دشمن کی نگاہوں سے چھپا لے گا اور تمھارے کام میں آسانی اور رحمت فرمائے گا۔