بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربا، بے حد رحم کرنے والا ہے۔
تعارف، سورت کا موضوع اور شان نزول: یہ سورت مشرکین مکہ کے تین سوالات کے جواب میں نازل ہوئی جو انھوں کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لینے کے لیے اہل کتاب کے مشورہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیے۔ (۱) اصحاب کہف کون تھے۔ (۲) قصہ خضر کی حقیقت کیا ہے۔ (۳) اور ذوالقرنین کا قصہ کیا ہے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سوالات کے صحیح جواب بتا دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی ہیں۔ چنانچہ نضر بن حارث اور عقبہ بن ابو معیط وغیرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور یہ تینوں سوالات کیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم کل آؤ میں جواب دوں گا‘‘ لیکن ان شاء اللہ کہنا بھول گئے یوں پندرہ دن گزر گئے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی اور نہ اللہ کی طرف سے ان باتوں کا جواب ہی معلوم کرایا گیا، اہل مکہ جوش میں آگئے، کہنے لگے لیجیے صاحب کل کا وعدہ تھا، آج پندرہ دن ہو گئے لیکن وہ بتا نہیں سکے۔ ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوہرا غم ستانے لگا۔ قریشیوں کو جواب نہ ملنے پر ان کی باتیں سننے کا بھی اور وحی کے بند ہو جانے کا بھی پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے سورہ کہف نازل ہوئی اس سورت میں ان شاء اللہ نہ کہنے پر تنبیہ کی گئی، چنانچہ ان نوجوانوں کا قصہ بیان کیا گیا اور اس سیاح کا ذکر کیا گیا اور آیت وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ کی بابت جواب دیا گیا۔ سورۂ کی فضیلت: اس سورت کی ابتدائی دس آیات اور آخری دس آیات کی فضیلت کے بارے میں وارد ہے کہ جو ان کو یاد کرے اور پڑھے گا، وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا۔ (مسلم: ۸۰۹، مسند احمد: ۵/ ۱۹۶) اور ایک روایت میں ہے کہ جو اس کی تلاوت جمعہ کے دن کرے گا تو آئندہ جمعہ تک اس کے لیے ایک خاص نور کی روشنی رہے گی۔(مستدرک حاکم: ۲/ ۳۶۸) اور فرمایا: اس کے پڑھنے سے گھر میں برکت و سکینت ہوتی ہے۔ (بخاری: ۳۶۱۴، مسلم: ۲۴۱/ ۷۹۵)