وَقُلْنَا مِن بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا
اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہا (٦٧) کہ تم لوگ اب اس سرزمین پر رہو، پس جب آخرت کا وقت آجائے گا تو ہم تم سب کو اکٹھا لائیں گے۔
فرعون کا قصہ بیان کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ مشرکین مکہ بھی مسلمانوں پر ایسے ہی سختیاں کر رہے تھے اور اس پر انھیں یہ سنایا جا رہا ہے کہ یہی کچھ فرعون نے حضر ت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے ساتھ کرنا چاہا تھا۔ مگر ہوا یہ کہ فرعون اور اُس کے ساتھی نیست و نابود کر دیے گئے اور زمین پر موسیٰ اور اس کے پیروکار بسائے گئے۔ اب اگر اسی روش پر تم چلو گے تو تمھارا انجام بھی اس سے کچھ مختلف نہ ہوگا۔ (تفہیم القرآن) یہ تو سزا دنیا میں ملے گی اور آخرت میں بھی ایسے لوگ ہمارے عذاب سے بچ کر نہیں جا سکتے۔ ہم ان سب کو اکٹھے کرکے اپنے حضور حاضر کر لیں گے پھر ان کے کرتوتوں کی انھیں پوری پوری سزا دیں گے۔