سورة الإسراء - آیت 95

قُل لَّوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَّسُولًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ کہہ دیجیے کہ اگر زمین پر رہنے والے فرشتے (٦٠) ہوتے جو سکون و اطمینان کے ساتھ اس پر چلتے پھرتے، تو ہم آسمان فرشتے کو پیغامبر بنا کر بھیجتے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

رسول کا بشر ہونا کیوں ضروری ہے: اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور انسانوں میں سے رسولوں کو بھیجنے کی وجہ بیان فرماتا ہے کہ اگر فرشتے رسالت کا کام انجام دیتے تو نہ تم ان کے پاس اُٹھ بیٹھ سکتے تھے اور نہ ان کی باتیں پوری طرح سمجھ سکتے تھے۔ انسان رسول چونکہ تمھارے ہی ہم جنس ہوتے ہیں تم ان سے اختلاط کر سکتے ہو ان کی عادات و اطوار دیکھ سکتے ہو اور مل جل کر ان سے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کر سکتے ہو ان کا عمل دیکھ کر خود بھی عمل کر سکتے ہو جیسا کہ سورہ آل عمران۱۶۴، سورہ التوبہ۱۲۸، سورۂ بقرہ۱۵۱ وغیرہ میں ہے۔ ان سب آیات کا مطلب ایک ہی ہے کہ یہ تو اللہ کا زبردست احسان ہے کہ اس نے تم میں سے ہی اپنے رسول بھیجے کہ وہ آیات الٰہی تمھیں ان کا پڑھ کر سنائیں۔ تمھارے اخلاق پاکیزہ کریں اور تمھیں کتاب و حکمت سکھائیں اور جن چیزوں سے تم بے علم تھے وہ تمھیں عالم بنا دیں۔ پس تمھیں میری شکر گزاری کرنی چاہیے کہ اگر زمین کی آبادی فرشتوں کی ہوتی تو بے شک ہم کسی آسمانی فرشتے کو ان میں رسول بنا کربھیجتے۔ چونکہ تم خود انسان ہو اس لیے ہم نے اس مصلحت کے پیش نظر انسانوں میں سے ہی اپنے رسول بنا کر تم پر بھیجے۔