سورة الإسراء - آیت 82

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ۙ وَلَا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَّا خَسَارًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم قرآن (٥١) میں بعض ایسی چیزیں نازل کرتے ہیں جو مومنوں کو شفا دینے والی اور ان کے لیے باعث رحمت ہوتی ہیں، اور ظالموں کے خسارے میں اضافہ کردیتی ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یعنی یہ قرآن نسخہ کیمیا اور ذریعہ بخشش ضرور ہے، مگر ان لوگوں کے لیے جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور اسے منزل من اللہ سمجھتے ہیں یہ قرآن ان کے دلوں کے سب روگ مثلاً کفر، شرک، نفاق، حسد، کینہ، بُخل، بدنیتی وغیرہ سب کچھ دور کر دیتا ہے۔ اور ان کے اخلاق رذیلہ کے علاج کے بعد معاشرہ میں ایک دوسرے سے رحمت، محبت، شفقت اور الفت کا سبب بنتا ہے۔ ایمان، حکمت، بھلائی، رحمت، نیکیوں کی رغبت قرآن سے حاصل ہوتی ہے۔ ہاں جو ظالم و جابر ہو جو اس سے انکار کرے وہ اللہ سے دور ہو جاتا ہے۔ قرآن کی ایک ایک آیت سے اس کی بدبختی میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّ شِفَآءٌ وَ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ فِيْ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّ هُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى اُولٰٓىِٕكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍ بَعِيْدٍ﴾ (حم السجدۃ: ۴۴) ’’کہہ دے کہ یہ ایمانداروں کے لیے شفا ہے اور بے ایمانوں کے کانوں میں پردے ہیں اور ان کی نگاہوں پر پردہ ہے۔ یہ تو دور دراز سے آوازیں دیے جاتے ہیں۔‘‘ اور فرمایا: ﴿وَ اِذَا مَا اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْهُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ اَيُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖ اِيْمَانًا فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّ هُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ۔ وَ اَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا اِلٰى رِجْسِهِمْ﴾ (التوبۃ: ۱۲۴۔ ۱۲۵) اور جب کوئی سورت اتری تو ایک گروہ نے پوچھنا شروع کیا کہ تم میں سے کسی کو اس نے ایمان میں بڑھایا؟ سنو ایمان والوں کے ایمان تو بڑھ جاتے ہیں اور وہ ہشاش بشاش ہو جاتے ہیں ہاں جن کے دلوں میں بیماری ہے ان کی گندگی بڑھ جاتی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اسے شفا اور رحمت صرف مومنوں کے لیے بنایا ہے۔