وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا
اور آپ کہہ دیجیے کہ حق آگیا (٥٠) اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل تو مٹنے کی چیز ہوتی ہی ہے۔
فتح مکہ کی پیشن گوئی: یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آکر بہت سے مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے اور باقی مسلمانوں پر ان کی سختیاں بہت بڑھ گئیں ان حالات میں ایسی پیشین گوئی اور اس قسم کا اعلان قریش کے لیے پھبتی اور مذاق کا سامان بن گیا تھا مگر اللہ کی مہربانی سے حالات نے پلٹا کھایا کہ اس واقعہ کے ٹھیک نو سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم فاتحانہ انداز سے بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی آیت تلاوت فرما رہے تھے اور اس وقت یہ آیت ایک واضح حقیقت بن کر قریش کے سامنے آچکی تھی۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ کی لکڑی سے ان بتوں کو چوکا دیتے اور فرماتے جاتے حق آچکا باطل دوبارہ آسکتا ہے نہ لوٹ سکتا ہے۔ (بخاری: ۴۷۲۰)