سورة الإسراء - آیت 77

سُنَّةَ مَن قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِن رُّسُلِنَا ۖ وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یہی طریقہ ان کے رسولوں کے لیے اپنایا گیا تھا، جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا، اور آپ ہمارے اس طریقے میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

عذاب کے متعلق اللہ کی سنت: اللہ کا دستور یہ ہے کہ جب تک کسی نافرمان قوم میں اللہ کا نبی موجود رہے اس وقت تک اس پر عذاب نہیں آتا اور جب عذاب مقدر ہوجائے تو نبی کو وہاں سے نکال لیا جاتا ہے۔ یا ہجرت کرنے کا حکم دے دیا جاتا ہے اور جب نبی نکل جاتا ہے تو پھر عذاب کو دو صورتیں ہوتی ہیں ایک یہ کہ اللہ براہ راست اس قوم پر عذاب نازل کر کے اس قوم کو تباہ کر دے اور دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ انھی لوگوں کے ہاتھوں اس سرکش قوم کو پٹوا دے۔ چنانچہ یہی ہوا کہ جب کفار مکہ نے آپ کو نکالا، پھر وہاں زیادہ مدت نہ گزار سکے۔ اللہ تعالیٰ نے فوراً ہی آپ کوغالب کیا، ابھی ڈیڑھ سال ہی گزرا تھا کہ بدر کی لڑائی بغیر کسی تیاری اور اطلاع کے اچانک ہو گئی اور وہیں کافروں کے کفر کا دھڑ ٹوٹ گیا۔ ان کے شریف و رئیس تہ تیغ ہوئے۔ ان کی شان و شوکت خاک میں مل گئی ان کے سردار قید میں آگئے۔ عذاب الٰہی نے انھیں غارت اور بے نشان کر دیا۔ ہاں چونکہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نبی رحمت تھے اس لیے کوئی آسمانی عذاب ان کافروں پر نہ آیا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِيْهِمْ﴾ (الانفال: ۳۳) ’’تیری موجودگی میں اللہ انھیں عذاب نہ کرے گا۔‘‘