سورة الإسراء - آیت 71

يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ فَمَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَٰئِكَ يَقْرَءُونَ كِتَابَهُمْ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جس دن ہم تمام لوگوں کو ان کے پیشواؤں (٤٢) کے نام کے ساتھ پکاریں گے اس دن جن لوگوں کو ان کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ انہیں پڑھیں گے اور ایک دھاگے کے برابر ان پر ظلم نہیں ہوگا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

امام کے معنی پیشوا، لیڈر یا قائد کے ہیں، یہاں اس سے کیا مرادہے؟ اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد پیغمبر ہے۔ یعنی ہر اُمت کو اس کے پیغمبر کے حوالے سے پکارا جائے گا، بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد آسمانی کتاب ہے جو انبیاء پر اُتاری گئیں۔ یعنی انھیں روزِ قیامت اے اہل تورات، اے اہل انجیل، اور اے اہل قرآن وغیرہ کہہ کر پکارا جائے گا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہاں نامہ اعمال سے مراد ہے یعنی ہر شخص کو جب بلایا جائے گا تو اس کا نامہ اعمال اسی کے ساتھ ہوگا اور اس کے مطابق اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اسی رائے کو امام ابن کثیر اور امام شوکانی نے ترجیح دی ہے۔ جیسا کہ سورہ یٰٓس میں ارشاد ہے: ﴿وَ كُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ﴾ (یٰسٓ: ۱۲) ’’ہر چیز کا ہم نے ظاہر کتاب میں احاطہ کر لیا ہے۔‘‘ اور سورۂ کہف میں ارشاد ہے: ﴿وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا فِيْهِ﴾ (الکہف: ۴۹) ’’کتاب یعنی نامہ اعمال درمیان میں رکھ دیا جائے گا اس وقت تو دیکھے گا کہ گنہگار اس کی تحریر سے خوف زدہ ہو رہے ہوں گے۔‘‘ سورہ زمرد میں ارشاد ہے: ﴿وَ اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ وَ جِايْٓءَ بِالنَّبِيّٖنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ﴾ (الزمر: ۶۹) ’’اور زمین اپنے پروردگار کے نور سے چمک اُٹھے گی۔ نامہ اعمال حاضر کیے جائیں گے نبیوں اور گواہوں کو بلایا جائے گا اور لوگوں کے درمیان حق حق فیصلے کر دیے جائیں گے اور وہ ظلم نہ کیے جائیں گے۔‘‘ اللہ کے فرمانبرداروں کا اعمال نامہ سامنے سے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ایسے شخص بہت خوش و خرم ہوں گے اور اپنا اعمال نامہ دوسروں کو بھی پڑھنے کے لیے کہیں گے۔ جس شخص کو اس کا اعمال نامہ پیچھے سے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اسے فوراً اپنا انجام معلوم ہو جائے گا۔ فتیلاً اس باریک دھاگے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے شگاف میں ہوتا ہے اور اس لفظ سے بہت تھوڑی مقدار مراد لی جاتی ہے۔ یعنی قیامت کے دن مجرموں کو ان کے گناہوں سے ذرہ بھر بھی زیادہ سزا نہ دی جائے گی۔