وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا
اور جب ہم نے آپ سے کہا کہ بیشک آپ کا رب تمام لوگوں کو اپنے گھیرے (٣٩) میں لیے ہوئے ہے اور ہم نے جو مشاہدات (شب معراج میں) آپ کو کرائے انہیں ہم نے لوگوں کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنا دیا تھا اور اس (زقوم کے) درخت کو بھی جس پر قرآن میں لعنت بھیجی گئی ہے، اور ہم کفار مکہ کو ڈراتے ہیں لیکن یہ چیز ان کی سرکشی کو بہت زیادہ بڑھا دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے خوف ہو کر دین کی تبلیغ کیجیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچاؤ کے ذمہ دار ہم ہیں وہ آپ کو کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے۔ ہم ان سے آپ کی حفاظت فرمائیں گے۔ وہ سب لوگ اللہ کے غلبہ اور تصرف میں ہیں اللہ جو چاہے گا وہی ہوگا نہ کہ وہ ہو گا جو چاہیں گے۔ مقصدِ معراج: صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ نے واقعۂ معراج کی تفسیر عینی رؤیت سے کی ہے اور مراد اس سے معراج کا واقعہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو آنکھوں سے دکھایا۔ جو بہت سے کمزور ایمان والوں کے لیے فتنے کا باعث بن گیا اور وہ مرتد ہو گئے کہ آگ میں بھلا زقوم (تھوہر) کا درخت کیسے اُگ سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَذٰلِكَ خَيْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ۔ اِنَّا جَعَلْنٰهَا فِتْنَةً لِّلظّٰلِمِيْنَ۔ اِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِيْ اَصْلِ الْجَحِيْمِ۔ طَلْعُهَا كَاَنَّهٗ رُءُوْسُ الشَّيٰطِيْنِ۔ فَاِنَّهُمْ لَاٰكِلُوْنَ مِنْهَا فَمَالِـُٔوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ﴾ (الصافات: ۶۲۔ ۶۶) ’’کیا یہ مہمانی اچھی ہے یا سینڈھ (زقوم) کا درخت؟ جسے ہم نے ظالموں کے لیے سخت آزمایش بنا رکھا ہے۔ بے شک وہ درخت جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے۔ جس کے خوشے شیطانوں کے سروں جیسے ہوتے ہیں۔ جہنمی اسی درخت میں سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے۔‘‘ یہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے کہ اس کی باتوں کو اپنی عقل کے پیمانے سے ناپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کا قول ہے۔ شب معراج اور شجرۃ الزقوم پر مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ دکھانا آنکھ کا دکھانا ہے۔ مشاہدہ جو شب معراج میں دکھایا گیا۔ (ابن کثیر)