وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا
اور نشانیاں (٣٨) بھیجنے سے ہمیں اس بات نے روک دیا ہے کہ گزشتہ قومیں ایسی نشانیوں کو جھٹلاتے رہی ہیں، اور ہم نے ثمود کو واضح نشانی کے طور پر اونٹنی دی تھی، تو انہوں نے اس کے ساتھ زیادتی کی اور ہم ایسی نشانیاں لوگوں کو ڈرانے کے لیے بھیجا کرتے ہیں۔
یہ آیت اس وقت اتری جب کفار مکہ نے مطالبہ کیا کہ کوہ صفا کو سونے کا بنا دیا جائے یا مکے کے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹا دیے جائیں تاکہ وہاں کاشت کاری ممکن ہو سکے۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل کے ذریعے سے پیغام بھیجا کہ ان کے مطالبات ہم پورے کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اگر اس کے بعد بھی وہ ایمان نہ لائے تو پھر ان کی ہلاکت یقینی ہے۔ پھرانھیں مہلت نہیں دی جائے گی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات کو پسند فرمایا کہ ان کا مطالبہ پورا نہ کیا جائے تاکہ یہ یقینی ہلاکت سے بچ جائیں۔ (مسند احمد: ۱/ ۲۴۲) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نشانیاں اتار دینا ان کی خواہش کے مطابق ہمارے لیے کوئی مشکل کام نہیں لیکن ہم ا س سے گریز اس لیے کر رہے ہیں کہ پہلی قوموں نے بھی اپنی خواہش کے مطابق نشانیاں مانگیں تھیں جو انھیں دکھا دی گئیں لیکن اس کے باوجود انھوں نے تکذیب کی اور ایمان نہ لائیں جس کے نتیجے میں وہ ہلاک کر دی گئی۔ قوم ثمود کا تذکرہ بطور مثال کے ہے کیونکہ ان کی خواہش پر پتھر کی چٹان سے اونٹنی ظاہر کرکے دکھا دی گئی تھی لیکن ان ظالموں نے ایمان لانے کی بجائے اس اونٹنی کو ہی مارڈالا، جس پر تین دن کے بعد ان پر عذاب آگیا۔ یہ آیتیں صرف دھمکانے کے لیے ہوتی ہیں کہ وہ عبرت و نصیحت حاصل کر لیں۔