وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے (26) کہ ایمان لاؤ جس طرح لوگ ایمان لائے، تو وہ کہتے ہیں (27)، کیا ہم ایمان لائیں جس طرح بے وقوف لوگ ایمان لائے، مومنو ! ہوشیار رہو، درحقیقت وہی لوگ بے وقوف ہیں، لیکن وہ اس حقیقت کو جان نہیں رہے ہیں
اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے كہ منافقین ان لوگوں کو بے وقوف سمجھتے تھے جو سچائی کے ساتھ ایمان لاکر اپنے آپ کو تکلیفوں اور مشکلات اور خطرات میں مبتلا کررہے تھے ۔ اہل مکہ نے اسلام لانے والوں کا جینا مشکل کردیا تھا۔ اور منافقین یہ کہتے تھے کہ یہ سراسر احمقانہ فعل ہے کہ محض حق اور سچائی کی خاطر تمام ملک کی دشمنی مول لے لی جائے اور یہ ایمان لانے والے انصار اور مہاجرین سچے مومن تھے، منافقوں کی طرح مفاد پرست نہیں تھے بلکہ دین کی خاطر ہر کٹھن سے کٹھن حالات کا مقابلہ کرنے حتیٰ کہ جان تک دینے کو بھی تیار تھے۔كسی اعلیٰ مقصد كے لیے دنیوی مفادات كو قربان كر دینا بےوقوفی نہیں بلكہ عین عقل مندی اور سعادت ہے۔ صحابہ كرام رضی اللہ عنہم نے اسی سعادت كا ثبوت دیا تھا ، اس لیے اب وہ صرف پكے مومن ہی نہیں بلكہ ایمان كے لیے ایك معیار اور كسوٹی بھی ہیں۔ مگر وہ یہ بات نہیں جانتے تھے کہ دین و ایمان پر دنیاوی مفادات کو ترجیح دینا ہی اصل میں سب سے بڑی حماقت ہے۔ ان کے مفادات یہ تھے کہ مسلمان ان کے جان و مال کی حفاظت کریں اور اگر جنگ ہو تو فتح کی صورت میں ان کو مال غنیمت میں سے حصہ مل جائے۔