وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَىٰ بَعْضٍ ۖ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا
اور آپ کا رب ان تمام مخلوقات سے خوب واقف (٣٥) ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور ہم نے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت دی ہے وار ہم نے داؤد کو زبور دیا تھا۔
انبیاء کی فضیلت کے پہلو: یہ مضمون سورۃ البقرہ۲۵۳ میں بھی گزرچکا ہے کہ رب تعالیٰ نے بعض پیغمبروں کو بعض دوسرے پیغمبروں پر فضیلت دی ہے۔ یہاں دوبارہ کفار کے اعتراض کے جواب میں یہ مضمون دہرایا گیا ہے۔ جو کہتے ہیں کہ کیا اللہ کو رسالت کے لیے یہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی ملا تھا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کسی کو رسالت کے لیے منتخب کرنا اور کسی ایک نبی کو دوسرے پر فضیلت دینا یہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ کوئی کلیم اللہ ہے تو کوئی بلنددرجہ والا ہے۔ کسی کو معجزے عطا کیے، ہر ایک کے مراتب کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبیوں میں فضیلتیں قائم نہ کرو۔ (بخاری: ۳۴۱۴) علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول پیغمبر سے افضل ہوتا ہے اور رسولوں میں سے پانچ اولوالعزم رسول سب سے افضل ہیں جن کا ذکر سورۂ احزاب میں ہے۔ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام سورۂ شوریٰ میں بھی ان پانچوں کے نام موجود ہیں۔ جس طرح یہ سب چیزیں ساری اُمت مانتی ہے اسی طرح بغیر اختلاف کے یہ بھی ثابت ہے کہ ان میں سب سے افضل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پھر حضرت داؤد علیہ السلام کو ہم نے پیغمبر بنایا اور زبور عطا کی حضرت داؤد کا بالخصوص ذکر کرنے کی دو وجوہات معلوم ہوتی ہیں کہ ایک یہ کہ داؤد علیہ السلام اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، پستہ قد ہونے کی بنا پر حقیر سمجھے جاتے تھے بکریاں چرایا کرتے تھے۔ مگر جو قیمتی جوہر ان میں موجود تھا انھیں اللہ ہی جانتا تھا۔ لہٰذا اللہ نے انھیں صاحب کتاب نبی بنایا اور بادشاہت بھی عطا کی۔ یہ ہے اللہ کی دین اور اللہ کا فضل کہ جس پر اس کی نظر انتخاب پڑتی ہے اسے جتنا چاہتا ہے نوازتا ہے۔