سورة البقرة - آیت 201

وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں اچھائی نصیب (290) فرما، اور آخرت میں بھی اچھائی نصیب فرما، اور ہم کو عذاب نار سے دور رکھ

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

دنیا دار اور مومن کا تقابل: ان دو آیات میں دنیا دار اور مومن کی زندگی کا تقابل پیش کیا گیا ہے جوشخص آخرت پر ایمان نہیں رکھتااسکی زندگی کا تمام تر مقصد دنیا کے مفادات کا حصول ہوتا ہے اور اس کی تمام کوشش اسی مقصد میں صرف ہوجاتی ہیں لیکن اسے ملتا اتنا ہی ہے جتنا اللہ نے اس کا مقدر کر رکھا ہوتا ہے یہی اس کا حصہ ہے ۔ آخرت میں اگر اس کے کچھ اعمال نیک تھے بھی تو اس کو ان کا کچھ اجرو ثواب نہیں ملے گا۔ اہل ایمان دنیا میں بھی دنیا طلب نہیں کرتے بلکہ نیکی کی ہی توفیق طلب کرتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کثرت سے یہ دعا پڑھتے تھے طواف کے دوران لوگ ہر چکر میں الگ الگ دعا پڑھتے ہیں جو خود ساختہ ہیں ان کے بجائے طواف کے وقت یہی دعا: ((رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ)) رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان پڑھنا مسنون ہے لہٰذا ایسے ہی لوگ بہر حال فائدے میں رہتے ہیں۔