سورة الإسراء - آیت 16

وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک (١٠) کرنا چاہتے ہیں، تو اس کے عیش پرستوں کو اجزت دے دیتے ہیں، پھر وہ اس میں فسق کا بازار گرم کرتے ہیں، تو اس پر عذاب ثابت ہوجاتا ہے، پھر ہم اسے یکسر تباہ و برباد کردیتے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اللہ کی نافرمانی میں پہلے خوشحال لوگ مبتلا ہوتے ہیں: اس میں وہ اصول بتلایا گیا ہے جس کی رو سے قوموں کی ہلاکت کا فیصلہ کیاجاتا ہے کہ خوشحال لوگ عیاشیوں اور ظلم و زیادتی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان میں بے حیائی، فحاشی، زنا، کمزوروں کے حقوق غصب کرنا اللہ کی نافرمانی، نعمتوں کی ناقدر شناسی، دنیا میں غیر ضروری انہماک وغیرہ وغیرہ امراض پیدا ہو جاتی ہیں۔ انھی کی تقلید پھر دوسرے لوگ کرتے ہیں اس طرح سارا معاشرہ فسق و فجور میں آجاتا ہے اور عذاب الٰہی کا مستحق بن جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِيْ كُلِّ قَرْيَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِيْهَا﴾ (الانعام: ۱۲۳) ہم نے ہر بستی میں بڑے بڑے مجرم رکھے ہیں۔