وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ ۖ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا
اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں (٦) بنائی ہیں، پس ہم رات کی نشانی کو مٹا دیتے ہیں (یعنی بے نور بنا دیتے ہیں) اور دن کی نشانی کو روشن بنا دیتے ہیں تاکہ تم اپنے رب کی پیدا کردہ روزی حاصل کرو اور تاکہ تم سالوں کی تعداد اور دوسرے حسابات معلوم کرو، اور ہم نے (قرآن میں) ہر چیز تفصیل کے ساتھ بیان کردی ہے۔
دن اور رات کے فوائد: اللہ تعالیٰ نے جہاں کہیں دن رات کا ذکر فرمایا ہے تو پہلے رات کا ہی ذکر کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطری تقویم یہی ہے کہ دن (۲۴گھنٹے) کا شمار یا ایک شام غروب آفتاب سے لے کر دوسرے دن کے غروب آفتاب تک ہو۔ اس آیت میں اللہ نے دو بڑی نشانیوں کا بیان فرمایا رات اور دن۔ یعنی رات آرام کے لیے اور دن معاش کے لیے کہ اس میں کام کاج کرو، صنعت و حرفت کرو، سیروتفریح کرو سفر کرو رات کو بے نور یعنی تاریک کر دیا تاکہ تم آرام کر سکو اور تمھاری دن بھر کی تھکاوٹ دور ہوجائے رات دن کے اختلاف سے دنوں کی مہینوں کی اور برسوں کی گنتی معلوم کر سکو۔ تاکہ لین دین میں معاملات میں، قرض میں، مدت میں عبادت کے کاموں میں سہولت ہو سکے اگر ایک ہی وقت رہتا تو بڑی مشکل ہوتی۔ اگر ات کے بعد دن اور دن کے بعد رات نہ آتی بلکہ ہمیشہ رات ہی رات اور دن ہی دن رہتا تو تمھیں آرام و سکون کا یا کاروبار کرنے کا موقع نہ ملتا۔ یہ نشانیاں دیکھنے اور سننے والوں کے لیے ہیں۔ اور یہ اس کی رحمت ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے کے پیچھے لگاتار آنے والا بنایا تاکہ شکر و نصیحت کا ارادہ رکھنے والے کامیاب ہو سکیں۔ قرآن میں ہے لوگ تجھ سے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے کہ وہ لوگوں کے لیے اوقات ہیں اور حج کے لیے بھی، یعنی انسان کے دین اور دنیا کی ضروری باتیں سب کھول کر ہم نے بیان کر دی ہیں تاکہ ان سے انسان فائدہ اُٹھائیں اپنی دنیا بھی سنواریں اور آخرت کی فکر اور اس کے لیے تیار کریں۔