وَآتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ أَلَّا تَتَّخِذُوا مِن دُونِي وَكِيلًا
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب (٢) (تورات) دی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنایا (اور ان سے کہا) تم سب میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بناؤ۔
سورہ بنی اسرائیل کا آغاز جو واقعہ اسراء سے ہوا ہے تو محض تمہید کے طور پر ہوا ہے ورنہ اصل روئے سخن یہود کی طرف ہے اور انھیں ان کی سابقہ تاریخ سے خبردار کرنے کے بعد متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو ولی اور مددگار نہ سمجھیں، معبود نہ سمجھیں۔ طوفان نوح علیہ السلام کے بعد نسل انسانی نوح علیہ السلام کے ان بیٹوں کی اور جو لوگ اس میں سوار ہوئے تھے تمام لوگوں کی اولاد ہے۔ ان سے کہا جا رہا ہے۔ کہ تمھیں اپنے بڑوں کی طرح ہماری شکر گزاری کرنی چاہیے۔ دیکھو میں نے تمھاری طرف اپنے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے۔ ان کا انکار کرکے کفران نعمت نہ کرو۔ تفسیر طبری میں ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام چونکہ کھاتے پیتے اور پہنتے اور غرض ہر وقت اللہ کی حمد وثنا بیان فرماتے رہتے تھے اس لیے آپ کو شکر گزار بندہ کہا گیا۔ مسند احمد ہے۔ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جو نوالا کھائے تو اللہ کاشکر بجا لائے اور پانی کا گھونٹ پیئے تو اللہ کا شکر ادا کرئے۔‘‘ (مسند احمد: ۳/ ۱۱۷، مسلم: ۲۷۳۴) صحیح بخاری میں ہے کہ جب لوگ طلب شفاعت کے لیے حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو ان سے کہیں گے کہ زمین والوں کی طرف آپ ہی پہلے رسول ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام شکر گزار بندہ رکھا ہے۔ آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجیے۔ (بخاری: ۴۷۱۲)