سورة النحل - آیت 112

وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اللہ ایک بستی (٦٩) کی مثال پیش کرتا ہے جو پر امن اور پرسکون تھی اس کی روزی کشادگی کے ساتھ ہر جگہ سے آتی تھی، پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان کے کرتوتوں کی وجہ سے انہیں شدید بھوک اور خوف و ہراس کا مزہ چکھایا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اکثر مفسرین نے اس قریہ (بستی) سے مراد مکہ لیا ہے۔ یعنی اس میں مکہ اور اہل مکہ کا حال بیان کیا گیا ہے۔ اور یہ اس وقت ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک اللہ کی پرستش کی دعوت دی اور شرکیہ افعال ترک کرنے کے لیے کہا تو وہ بگڑ گئے اور پیغمبراسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو دکھ دینا شروع کر دیے اور ان کے جانی دشمن بن گئے، تب اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنی نعمتیں چھین لیں اور ان پر قحط کا عذاب مسلط کر دیا اور یہ قحط سات سال تک ان پر مسلط رہا اور ان کا یہ حال ہو گیا کہ مردہ جانوروں کے چمڑے اور ہڈیاں تک کھانے پر مجبور ہو گئے اور جسمانی کمزوری اور بھوک کی شدت کا یہ حال تھا کہ اگر آسمان کی طرف نگاہ اُٹھاتے تو انھیں دھواں ہی دھواں نظر آیا، بھوک کی وجہ سے کچھ لوگ تو مرگئے اور جو باقی تھے انھیں بھی ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ اگر کچھ عرصہ یہی حالت رہی تو ان کا زندہ رہنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔ گویا یہ عذاب صرف بھوک کا نہ تھا۔ بلکہ بھوک کی وجہ سے مرجانے کا خوف بھی اس پر مسلط رہتا تھا۔