وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
اور کھجوروں (٤١) اور انگوروں کے پھلوں سے تم لوگ نشہ آور شراب اور کھانے کی عمدہ چیزیں تیار کرتے ہو، بیشک اس میں ایسے لوگوں کے لیے نشانی ہے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔
چار قسم کے مشروب میں جو اللہ کی بڑی نعمتیں ہیں اور یہ مشروب انسان کو اللہ نے اس دنیا میں عطا فرمائے ہیں، اور اہل جنت کو جنت میں بھی با افراط عطا فرمائے گا۔ (۱)پانی، (۲) دودھ۔ (۳) شراب، (۴) شہد۔ جیساکہ محمد ۱۵میں فرمایا ہے۔ جنت کی صفت جس کا پرہیزگار وں سے وعدہ کیاگیاہے یہ ہے کہ اس میں پانی کی نہریں ہیں جو بدبو کرنے والا نہیں، دودھ کی نہریں ہیں جس کا مزہ نہیں بدلا، اور شراب کی نہریں ہیں جن میں پینے والوں کے لیے بڑی لذت ہے، اور نہریں ہیں شہد کی جو لبت صاف ہیں ۔ یہ سورت مکی ہے جس میں شراب کے بارے میں ناپسندیدگی کااظہار ہے پھر مدنی سورتوں میں بتدریج اس کی حرمت نازل ہوگئی ۔ مستدرک حاکم میں ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں شراب بناتے ہو جو حرام ہے ۔ اور دوسری طرح کھاتے ہو جو حلال ہے۔ (مستدرک حاکم: ۲/ ۳۵۵) مثلاً خوش کھجوریں، کشمش وغیرہ ان چیزوں میں نشانی یہ ہے کہ ایک ہی چیز میں وہ مادہ بھی موجود ہے جو انسان کے لیے حیات بخش غذابن سکتاہے۔ اور وہ مادہ بھی موجود ہے جو سڑکر نشہ آور شراب یا الکوحل میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اب یہ انسان کا انتخاب ہے کہ وہ ان سرچشموں سے پاک رزق حاصل کرتاہے یا عقل کو زائل کردینے والی شراب ۔ دراصل جو ہر انسانیت عقل ہی ہے ۔ اسی کی نگہبانی کے لیے شریعت مطہرہ نے نشے والی شرابیں اس اُمت پر حرام کردیں ۔