الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ ۖ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِن سُوءٍ ۚ بَلَىٰ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
ان کی روحیں (١٧) فرشتے اس حال میں قبض کریں گے کہ وہ اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہوں گے، تو وہ نیاز مندی کرتے ہوئے کہیں گے کہ ہم تو کوئی برا کام نہیں کرتے تھے، تو ان سے کہا جائے گا ہاں بیشک تم لوگ جو کچھ کیا کرتے تھے انہیں اللہ خوب جانتا ہے۔
عذاب قبر اور اس کی کیفیت: اس آیت میں مشرک، ظالموں کی موت کی کیفیت بیان کی جارہی ہے ۔ جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو وہ صلح کی بات کرتے ہیں اور ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو برائی نہیں کرتے تھے جس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ کیا تم جھوٹ بول کر اللہ کو دھوکا دیناچاہتے ہو۔ حالانکہ اللہ تمہاری ایک ایک حرکت سے باخبر ہے ۔ میدان محشر میں اللہ کے روبر بھی جھوٹی قسمیں کھائیں گے اور کہیں گے: ﴿وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ﴾ (الانعام: ۲۳) ’’اللہ کی قسم ہم مشرک نہیں تھے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيَحْلِفُوْنَ لَهٗ كَمَا يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ وَ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ عَلٰى شَيْءٍ اَلَا اِنَّهُمْ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ﴾ (المجادلہ: ۱۸) ’’جس دن اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا تو اللہ کے سامنے بھی اسی طرح یہ (جھوٹی ) قسمیں کھائیں گے جس طرح تمہارے سامنے کھاتے ہیں۔ خبردار یہ لوگ جھوٹے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اب اپنے کرتوتوں کا خمیاز ہ بھگتو اور جہنم کے دروازوں سے جاکر ہمیشہ ہمیشہ اسی بُری جگہ میں پڑے رہو ۔ مقام بُرا،مکان بر ا یعنی ذلت و رسوائی والا،اللہ کی آیتوں سے تکبر کرنے والا اور اس کے رسولوں کی اتباع سے جی چرانے والا، اس کایہی بدلہ ہے، مرتے ہی ان کی روحیں جہنم میں چلی جائیں گی اور جسموں پر قبروں میں جہنم کی گرمی اور اس کی لپک آنے لگے گی ۔ قیامت کے دن روحیں جسموں سے مل کر جہنم کی آگ میں ڈال دی جائیں گی اب نہ موت ہے نہ ہی عداب میں تخفیف ہے۔ جیساکہ ارشاد ہے: ﴿اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِيًّا وَ يَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ اَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ (المومن: ۴۶) ’’ یہ دوزخ کی آگ کے سامنے ہر صبح شام لائے جاتے ہیں ۔ قیامت کے قائم ہوتے ہی اے آل فرعون تم سخت تر عذاب میں چلے جاؤ گے۔‘‘