قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُم مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِن فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ
جو لوگ ان سے پہلے گزر چکے ہیں انہوں نے سازش (١٦) کی تو اللہ نے ان کی عمارت کو جڑوں سے گرا دیا، پس ان پر چھت ان کے اوپر سے آگری، اور اللہ کا عذاب ان پر اس جہت سے آگیا جس کے بارے میں وہ سوچتے بھی نہیں تھے۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد نمرود ہے اور بعض کہتے ہیں کہ بخت نصر ہے۔ جنہوں نے آسمان پر کسی طرح چڑھ کر اللہ کے خلاف مکر کیا اور بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ ایک تمثیل ہے ۔ جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کے ساتھ کفر و شرک کرنے والوں کے عمل اسی طرح برباد ہوں گے۔ جس طرح کسی مکان کی بنیادیں متزلزل ہوجائیں اور وہ چھت سمیت گر پڑے۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مقصود ان قوموں کے انجام کی طر ف اشارہ کرناہے، جن قوموں نے پیغمبروں کی تکذیب پر اصرار کیا اور بالآخر عذاب الٰہی میں گرفتار ہو کر اپنے گھروں سمیت تباہ ہوگئے مثلاًقوم عاد، قوم لوط وغیرہ چنانچہ ارشاد ہے: ﴿هُوَ الَّذِيْ اَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ يَّخْرُجُوْا وَ ظَنُّوْا اَنَّهُمْ مَّانِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوْا﴾ (الحشر: ۲) ’’وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافروں کو ان کے گھروں سے پہلے حشر کے وقت نکالا تمہارا گمان بھی نہ تھاکہ وہ نکلیں گے اور وہ خود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان کے قلعے ان کو اللہ کے عذاب سے بچالیں گے ۔ پس اللہ کاعذاب ان کے پاس ایسی جگہ سے آیا جہاں سے ان کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔‘‘ قریش مکہ لوگوں کو اسلام سے دور رکھنے کی کوشش اور کئی طرح کی تدبیریں کرتے رہتے تھے ۔ اسلام لانے والوں پر سختیاں کرتے، انھیں تنگ کرتے بیت اللہ میں داخلہ اور بالخصوص طواف پر پابندیاں، قرآن کو بلند آواز سے پڑھنے پر دھمکیاں اور پھر معاشرتی بائیکاٹ، یہ سب اس لیے کرتے کہ اسلام اور اس کی دعوت کا کلی طور پر استیصال کردیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاان سے پہلے بھی لوگ دعوت حق کے مقابلے میں ایسے ہی چالیں چلتے رہے لیکن جب اللہ کاعذاب آیا تو ان کی چالوں کے محل بنیادوں ہی سے اکھڑ کر زمین پر آ رہے ۔ جس کا انھیں وہم و گمان بھی نہیں ہوسکتا تھا۔