سورة النحل - آیت 15

وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَارًا وَسُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اس نے زمین میں پہاڑ (٩) رکھ دیئے تاکہ وہ تمہیں اٹھائے ہوئے ڈگمگاتی نہ رہے، اور نہریں اور راستے بنائے تاکہ تم (اپنی منزل تک) راہ پاسکو۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الْجِبَالَ اَرْسٰىهَا﴾ (النازعات: ۳۲) ’’پھر پہاڑوں کو مضبوط گاڑ دیا۔‘‘ حضرت حسن رحمۃ اللہ کاقول ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین بنائی تو وہ ہل رہی تھی یہاں تک کہ فرشتوں نے کہاکہ اس پر تو کوئی ٹھہر ہی نہیں سکتا۔ صبح دیکھتے ہیں کہ پہاڑ اس پر گاڑدیے گئے ہیں اور اس کاہلناموقوف ہوگیا ۔ پس فرشتوں کو یہ بھی نہ معلوم ہوسکا کہ پہاڑ کس چیز سے پیداکیے گئے۔ قیس بن عبادہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زمین نے کہاتو مجھ پر بنی آدم کو بساتاہے، جو میری پیٹھ پر گناہ کریں گے اور خباثت پھیلائیں گے، وہ کانپنے لگی۔ پہاڑوں کا گاڑھنا بھی اللہ کاایک احسان عظیم ہے کیونکہ اگر زمین ہلتی رہتی تو اس میں سکونت ممکن ہی نہ رہتی ۔ اس کااندازہ ان زلزلوں سے کیاجاسکتاہے ۔ جو چند سیکنڈ اور لمحوں کے لیے آتے ہیں لیکن کس طرح وہ بڑی بڑی مضبوط عمارتوں کو پیوند زمین اور شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیتے ہیں۔ پھر انہی پہاڑوں سے اللہ نے دریاؤں کو رواں کیا، نہروں کاسلسلہ بھی عجیب ہے کہاں سے شروع ہوتی ہیں اور کہاں کہاں، دائیں بائیں،شمال جنوب، مشرق مغرب ہر جہت کو سیراب کرتی ہیں اسی طرح راستے بنادیے خشکی میں، تری میں، پہاڑ میں جنگل میں، بستی میں، اُجاڑ میں، ہر جگہ اللہ کے فضل و کرم سے راستے موجو دہیں کہ ادھر سے اُدھر لوگ آجاسکیں ۔ پہاڑ،ٹیلے وغیرہ، علامتیں بھی مقرر کردی ہیں۔