أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
یہ روزے گنتی کے چند ایام ہیں، اگر تم میں سے کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو اتنے دن گن کر بعد میں روزہ رکھ لے، اور جنہیں روزے رکھنے میں مشقت اٹھانی پڑتی ہو، وہ بطور فدیہ ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں، اور جو کوئی اپنی خوشی سے زیادہ بھلائی کرنا چاہے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے، اور (مشقت برداشت کرتے ہوئے) روزہ رکھ لینا تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم علم رکھتے ہو
بیمار اور مسافر کو رعایت یہ ہے کہ وہ بعد میں روزوں کی گنتی کو پورا کرلیں اس میں حیض و نفاس والی عورتوں کو بھی رعایت ہے۔ لیکن اگر بیماری میں افاقہ كی اُمید نہ ہو تو ایسی صورت میں کفارہ دیا جاسکتا ہے کوئی شخص بوڑھا اور ضعیف ہو روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو تو وہ بھی کفارہ دے سکتا ہے اور یہ کفارہ دو وقت مسکین کو کھانا کھلانا ہے یا اس کے برابر نقد رقم ادا کرنا ہے۔ جس طرح سفر میں تکلیف بڑھ جانے سے روزہ کھول دینا سنّت ہے اسی طرح مرض بڑھ جانے کی صورت میں بھی روزہ افطار کیا جاسکتا ہے ورنہ اگر موت واقع ہوگئی تو یہ خود کشی تصور ہوگی؟ نیکی میں سبقت: جو کوئی خوشی سے ایک مسکین کے بجائے دو یا تین کو کھانا کھلادے تو اس کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ ہم ایک سفر میں تھے اچانک کسی کے سر میں ایک پتھر لگا جس سے اس كا سر بُری طرح زخمی ہوگیا۔ اتفاق سے اس کو احتلام ہوگیا اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کیا میں تیمم کر سکتا ہوں وہ کہنے لگے نہیں پانی موجود ہے۔ (تم كو غسل كرنا چاہیے)چنانچہ اس نے غسل کیا تو اس کی موت واقع ہوگئی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا پتہ چلا تو فرمایا: ’’اللہ ان لوگوں کو ہلاک کرے انھوں نے اپنے ساتھی کو مار ڈالا۔‘‘(سنن ابوداؤد: ۳۳۷) جہالت اور لا علمی كا علاج پوچھ لینا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا كہ وہ زخم پر پٹی باندھ لیتا، تیمم کرلیتا اور باقی جسم کو دھولیتا۔