يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ
وہ اپنے فیصلہ کے مطابق فرشتوں کو وحی (٢) دے کر اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اتارتا ہے، اور انہیں حکم دیتا ہے کہ لوگوں کو اس بات سے آگاہ کردو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، پس تم لوگ مجھ سے ڈرتے رہو۔
روح کیاہے ۔ روح سے مراد یہاں وحی ہے جیساکہ ارشاد ہے: ﴿وَ كَذٰلِكَ اَوْحَيْنَا اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَ لَا الْاِيْمَانُ﴾ (الشوریٰ: ۵۲) ’’ہم نے اسی طرح تیری طرف اپنے حکم سے وحی فرمائی حالانکہ تجھے تو یہ بھی پتہ نہ تھاکہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کی ماہیت کیا ہے؟‘‘ قرآن میں روح تین معنوں میں استعمال ہواہے۔ ۱۔ روح بمعنی لطیف جو ہر جاندار میں موجود ہے جس کی وجہ سے اس جاندار کے اعضا ء حرکت کرتے ہیں جب روح نکل جاتی ہے تو جاندار بے جان ہوجاتاہے یا مر جاتاہے۔ ۲۔ روح بمعنی فرشتہ جیساکہ سورۂ مریم میں فرمایا: ﴿فَاَرْسَلْنَا اِلَيْهَا رُوْحَنَا﴾ ’’یعنی ہم نے مریم کی طرف اپنی روح یا فرشتہ بھیجا۔ ۳۔ روح بمعنی وحی ۔ وہ پیغام جو فرشتہ اللہ کی طرف سے لائے اس سے مراد وحی بھی ہو سکتا ہے اور سارا قرآن بھی جیساکہ سورۃ الشوریٰ ۵۲ میں ہے۔ سورۃ المومن میں ارشاد ہے: ﴿يُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ﴾ (المومن: ۱۵) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتاہے اپناپیغام نازل کرتاہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے اعتراضات کاجواب فرمایاہے۔ (۱) کہ اگر نبی سچاہے تو ہم پر عذاب کیوں نہیں اتا۔ (۲)۔ اللہ تعالیٰ کو بس یہی آدمی نبوت کے لیے ملاتھاکیا مکہ اور طائف کے سارے سردار مارے گئے تھے۔ اللہ فرماتاہے۔ ہم اپنے جن بندوں کو چاہیں پیغمبری عطا کرتے ہیں۔ ہم ہی فرشتوں میں سے بھی اعلیٰ منصب کے فرشتے چھانٹ لیتے ہیں اور انسانوں میں سے بھی ۔ اللہ اپنی وحی اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتاہے اُتارتاہے کہ وہ ملاقات کے دن سے ہوشیار کردیں ۔ جس دن سب کے سب اللہ کے سامنے ہوں گے۔ اس دن ملک کس کا ہوگا؟ صرف اللہ واحد و قہار کا۔ یہ اس لیے کہ وہ لوگوں میں اعلان کردیں اور پارسائی سے دور مشرکوں کو ڈرا اور سمجھا دیں کہ وہ مجھ ہی سے ڈرتے رہا کریں ۔