سورة البقرة - آیت 182

فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

ہاں اگر کسی وصیت کرنے والے (261) کی طرف سے جانبداری یا گناہ کا ڈر ہو، اس لئے اگر کوئی شخص رشتہ داروں کے درمیان صلح کرادے، تو ایسا کرنے والے پر کوئی گناہ نہیں، بے شک اللہ مغفرت کرنے والا، اور رحم کرنے والا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اگر مرنے والا کسی رشتے دار کی طرف غلطی سے زیادہ مائل ہوکر دوسروں کی حق تلفی کرے یا جان بوجھ کر ایسا کرے تو اس پر عمل نہ کرنا چاہیے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وصیت میں عدل و انصاف کا اہتمام ضروری ہے ورنہ دنیا سے جاتے جاتے بھی ظلم کا ارتکاب اس کے اخروی نجات کے نکتہ نظر سے سخت خطرناک ہے۔