سورة الحجر - آیت 80

وَلَقَدْ كَذَّبَ أَصْحَابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اصحاب حجر (٣٢) نے بھی ہمارے رسولوں کو جھٹلایا تھا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

وادی حجر سے مراد قوم ثمو د ہے۔ جس کی طرف صالح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا گیاتھااور یہاں جو ایک رسول کی بجائے رسولوں کاذکر فرمایا تو اس لحاظ سے ہے کہ ایک نبی کو جھٹلانے والا تمام رسولوں کے جھٹلانے والے کے مترادف ہے کیونکہ تمام رسولوں کی بنیادی تعلیم ایک ہی رہی ہے۔ نشانیوں سے مراد اونٹنی اور اس کابچہ تھیں اور یہ معجزہ ان کے مطالبہ پر انھیں عطا ہوا۔ لیکن ظالموں نے اسے بھی قتل کرڈالا۔ ان لوگوں نے اللہ کی بتلائی ہوئی راہ پر چلنے کی بجائے اپنے اندھے پن کو ترجیح دی۔ اصحاب الحجر یا قوم ثمود: یہ لوگ بڑے طویل القامت، مضبوط جسم اور لمبی عمروں والے تھے۔ سنگ تراش اور انجینئر قسم کے لوگ تھے پہاڑوں کو تراش کر گھر بنالیتے تھے، یہ گھر اتنے مضبوط ہوتے تھے کہ جوہر طرح کی ارض و سماوی آفات مثلاً زلزلہ، سیلاب، طوفان بادوباراں وغیرہ کامقابلہ کرسکتے تھے لہٰذا ہر قسم کے خوف و خطر سے نڈر ہو کر ان میں رہتے تھے۔ قوم ثمو د کی تباہ شدہ بستیاں: ان پر جو عذاب الٰہی نازل ہوا وہ ایک زبردست قسم کی دہشت ناک آواز تھی ان کے مکان جو ہر طرح کی ارضی و سماوی آفات سے مامون تھے اس عذاب کے لیے کچھ بھی کارآمد ثابت نہ ہو سکے۔ اللہ نے ایسا عذاب بھیجاکہ وہ اپنے گھروں میں ہی مر گئے اور وہیں گلتے سڑتے رہے۔ ان کاعلاقہ راستہ پر پڑتاہے ۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ :’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر تبوک میں جب حجر کے مقام پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ اُن کے کنوؤں سے نہ پانی پئیں نہ ڈول بھریں۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا کہ ’’ہم نے تو اس سے آٹاگوندھ لیا ہے اور پانی بھر بھی لیاہے۔ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’آٹا پھینک دو اور پانی بہادو ۔‘‘پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹا اونٹوں کو کھلانے کی اجازت دے دی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاکہ اس کنوئیں سے پانی پلاؤ جس سے (صالح علیہ السلام کی ) اونٹی پیتی تھی اور ان کی بستیوں سے روتے ہوئے گزرو، اگر رونانہ آئے تو رونی صورت بنا کر چلو ایسانہ ہو کہ ان جیسا عذاب تم پربھی نازل ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر سے اپنا سر ڈھانک لیا اور تیزی سے اپنی سواری چلاتے ہوئے وہاں سے نکل گئے ۔ (بخاری: ۲۰/ ۴۴۱۹) صالح علیہ السلام نے ان سے کہاتھاکہ تین دن بعد تم پر عذاب آجائے گا۔ چنانچہ چوتھے دن ٹھیک صبح کے وقت ان پر عذاب الٰہی چنگھاڑ کی صورت میں آیا ۔ اس وقت ان کی کمائیاں کچھ کام نہ آئیں۔