كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ
جب تم میں سے کسی کی موت قریب ہو، اور وہ مال و جائیداد چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو رہا ہو، تو تمہارے اوپر والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لئے مناسب وصیت (259) فرض کردی گئی ہے، یہ متقی لوگوں پر لازم ہے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے حق دار کو اس کا حق پہنچا دیا ہے۔ اب کوئی وصیت نہیں ہوگی۔‘‘ (ابوداؤد: ۲۸۷۲) جب تک وراثت کا قانون نہیں تھا اس وقت تک وصیت کرنے کا حق تھا۔ میراث كا قانون آنے کے بعد صرف كل مال كا تہائی حصہ غیر وارث کو دیا جاسکتا ہے: (۱) وارثوں کے حصے میں کمی بیشی نہیں ہوگی۔ (۲) کسی وارث کے حق میں وصیت نہیں ہوسکتی ۔ (۳) البتہ تہائی حصہ میں وصیت ہوسکتی ہے۔ اس میں فلاحی اداروں كو دینے ، صدقہ جاریہ كرنے اور کسی کی مدد كرنے كی گنجائش ہے۔ اپنی آخرت کی جواب دہی کے لیے وصیت کردینی چاہیے۔ انسان لمبی زندگی کی اُمید اور نا سمجھی کی وجہ سے وصیت کو اہمیت نہیں دیتا وارثوں کے لیے نہ چھوڑنا، ان کو غنی نہ کرنے والا جہنمی ہے۔ اللہ سے ڈرنے والے کو وصیت کرنی چاہیے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے مسلمانوں پر حق ہے کہ جو اس کے پاس ہے اس کو دو راتیں بھی نہیں گزارنی چاہئیں کہ وہ وصیت نہ کرے۔ (بخاری: ۲۷۳۸)