إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
بیشک ہم نے قرآن (٧) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
یعنی قرآن کو دست بردزمانہ سے اور تحریف و تغیر سے بچانا ہمارا کام ہے۔ چنانچہ قرآن آج تک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح یہ اتراتھا۔ گمراہ فرقے اپنے اپنے گمراہانہ عقائد کے اثبات کے لیے اس کی آیات میں معنوی تحریف تو کرتے رہے ہیں اور آج بھی کرتے ہیں لیکن پچھلی کتابوں کی طرح یہ لفظی تحریف وتغیر سے محفوظ ہے۔ علاوہ ازیں اہل حق کی ایک جماعت بھی تحریفات معنوں کا پردہ چاک کرنے کے لیے ہر دور میں موجود رہی ہے جو ان کے گمرا ہانہ عقائد اور غلط استدلالات کے تاروپود بکھیرتی رہی ہے اور آج بھی وہ اس محاذ پر سرگرم عمل ہے۔ ذکراور قرآن میں فرق: اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کی بجائے ذکر کا لفظ استعمال فرمایا جن کے لغوی معنی یاد دہانی یا نصیحت ہے جیسے سورۃ قمر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ) جس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ قرآن اور ذکردو الگ الگ چیزیں ہیں تو اس سے مراد تمام منزل من اللہ وحی ہوتی ہے۔ یعنی کتاب بھی اور بصیرت بھی جو اللہ تعالیٰ کتاب کو بیان کے لیے اپنے رسولوں کو عطا فرماتاہے۔ اسی بصیرت کو ہم سنت بھی کہتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن کی حفاظت کاہی ذمہ نہیں لیا بلکہ اس کے معانی و مطالب کا بھی ذمہ لے رکھا ہے ۔ یہ شرف اور محفوظیت کامقام پچھلی کسی بھی کتاب اور رسول کو حاصل نہیں ہوا۔