وَأَنذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ۗ أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُم مِّن قَبْلُ مَا لَكُم مِّن زَوَالٍ
اور آپ لوگوں (٣٢) کو اس دن سے ڈرایئے جب عذاب ان کے سامنے ہوگا، تو ظالم لوگ کہیں گے اے ہمارے رب ! ہمیں کچھ دنوں کے لیے مہلت دے دے تاکہ تیری دعوت کو قبول کرلیں اور رسولوں کی پیروی کریں (تو ان سے کہا جائے گ) کیا تم لوگوں نے اس کے قبل قسم نہیں کھائی تھی کہ تم کبھی بھی ختم نہ ہو گے۔
عذاب دیکھنے کے بعد: ظالم اور بے انصاف لوگ اللہ کا عذاب دیکھنے کے بعد تمنائیں کرتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں کہ ہمیں ذرا سی مہلت مل جائے۔ ہم فرمانبرداری کریں گے، پیغمبروں کی اطاعت بھی کریں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ﴾ (المومنون: ۹۹) ’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ الٰہی اب واپس لوٹا دے۔‘‘ یہی مضمون سورۃ منافقون ۹ میں ہے ۔ یعنی اے مسلمانو ! تمہیں تمہارے مال، اولاد یا د الٰہی سے غافل نہ کردیں ایسا کرنے والے لوگ ظاہری خسارے میں ہیں ۔ ہمارا دیا ہوا ہماری راہ میں خرچ کرتے رہو ایسانہ ہو کہ موت کے وقت آرزو کرنے لگو کہ مجھے ذرا سی دیر کی مہلت مل جائے تو میں خیرات ہی کر لوں اور نیک لوگوں میں شامل ہوجاؤں، یاد رکھو اجل آنے کے بعد کسی کو مہلت نہیں ملتی اور اللہ تمہارے سارے اعمال سے باخبر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَوْ تَرٰى اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا اَبْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ﴾ (السجدۃ: ۱۲) کاش کہ تم گنہگاروں کو دیکھتے کہ وہ اپنے پروردگار کے روبرو سرجھکائے کہہ رہے ہوں گے کہ اے ہمارے رب ہم نے دیکھ لیا سن لیا، تو ہمیں ایک بار دنیامیں پھر بھیج دے کہ ہم یقین والے ہو کرنیک اعمال کرلیں ۔ یہی یہاں سورۃ انعام ۲۷اور سورۃ الفاطر ۳۷ میں بھی ہے۔ یہاں انھیں جو اب ملتاہے کہ تم تو اس سے پہلے قسمیں کھاکھا کر کہتے تھے اور دوسروں کو بھی یقین دلاتے تھے کہ مُردوں کو اللہ دوبارہ زندہ نہ کرے گا۔