سورة الرعد - آیت 38

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً ۚ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے آپ سے پہلے انبیاء و رسل بھیجے اور انہیں بیویاں (٣٧) اور اولاد دی، اور کسی رسول کو یہ قدرت حاصل نہیں تھی کہ وہ اللہ کی مرضی کے بغیر کوئی نشانی (٣٨) لاسکے، ہر کام کا مقرر وقت لکھا ہوا ہے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

یعنی آپ سے پہلے جتنے بھی رسول اور نبی آئے سب بشرہی تھے ۔ جن کا اپنا خاندان اور قبیلہ اور بیوی بچے تھے وہ کھانا کھاتے تھے ۔ بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰى اِلَيَّ﴾ (الکہف: ۱۱۰) ’’آپ لوگوں سے کہہ دیجیے کہ میں بھی تم جیسا ہی ایک ا نسان ہوں میری طرف وحی الٰہی کی جاتی ہے۔‘‘ مسلم (کتاب النکاح، ح: ۱/ ۱۴۰) کی حدیث میں ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’میں نفلی روزے رکھتاہوں اور نہیں بھی رکھتا۔ راتوں کو تہجد بھی پڑھتاہوں اور سوتابھی ہوں، گوشت بھی کھاتاہوں اور عورتوں سے بھی ملتاہوں۔ جو شخص میرے طریقے سے منہ موڑے وہ میرانہیں۔‘‘ (بخاری: ۵۰۶۳، مسلم: ۱۴۰۱) جاہل لوگ اعتراض کرتے تھے کہ نبیوں اور اللہ والوں کادنیا کے دھندوں سے کیا تعلق۔ اللہ تعالیٰ جواب دیتے ہیں کہ اگر فرشتے نبی اور رسول ہوتے تو انسانوں کے لیے ان سے مانوس ہونا اور ان کے قریب ہوناناممکن تھا ۔ جس سے ان کے بھیجنے کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا، اس سے پتا چلتا ہے کہ تمام انبیاء بہ حیثیت جنس کے بشر ہی تھے اور بشری تقاضوں کو پورا کرتے تھے اور چونکہ وہ بشر تھے اس لیے ان میں سے کسی میں یہ طاقت نہ تھی کہ اپنی مرضی سے یا اپنی قدرت سے کوئی معجزہ دکھاسکتے الایہ کہ اللہ کے حکم سے ان کے ہاتھوں سے کسی معجزہ کا صدور ہوتا رہا اور اگر اب بھی اللہ چاہے اس نبی کے ہاتھوں معجزہ دکھا نے پر قادر ہے۔ ہر دور کے لیے الگ شریعت: یعنی ہر نبی ایک ہی جیسے دین کے اصول پیش کرتارہاہے۔ مگر ان کی شریعتوں میں ان کے دور کے مطابق فرق رہاہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ موسوی شریعت میں قصاص کا حکم تھا۔ عفو و درگزر کانہ تھا۔ پھر عیسوی شریعت میں قصاص کا حکم منسوخ کر دیا گیا اور عفو و درگزر کا حکم مقرر کر دیاگیا، پھر شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک بار پھر سے قصاص کا حکم بحال کردیاگیا مگر افضلیت عفو و درگزر کو ہی دی گئی ۔ احکام میں اس قسم کاردوبدل ہر دور کے لوگوں کی طبیعتوں کی اصلاح کے لیے کیاہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس حکم کو چاہا سابقہ شریعتوں میں بحال رکھا اور جسے چاہا منسوخ کرکے نئی قسم کے احکام دے دیے ۔ پس اس قرآن میں جو اس نے چاہا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا اور تمام اگلی کتابیں منسوخ ہوگئیں۔ ہر شئے کا ایک وقت (مقدار ) ہے جو اس وقت مقررہ پر واقع ہو کر رہے گا۔ مطلب ہر وہ امر جسے اللہ نے امر الکتاب میں لکھ رکھاہے ۔ وہ پوراہو کر رہے گا یعنی معاملہ کفار کے ارادے اور منشاء پرنہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔